Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dua (2)

Dua (2)

ہر ملک میں دانشوروں اور مفکروں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ دانشوروں کا اصل مسئلہ ملک کے عوام پر ہونے والی سماجی سیاسی اور معاشی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا اور عوام کو طبقاتی ناانصافیوں سے بچانا ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ سماجی ناانصافی اور طبقاتی جبر کے خلاف بھی رائے عامہ کو بیدار کرنا دانشوروں، مفکروں کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمے داری ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک اور دنیا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے دانشور اور مفکر کورونا کی شدید حالت میں موجود ہیں۔ عوام کے مسائل عوام کی مشکلات سے انھیں کوئی پرواہ نہیں کیونکہ بھاری بھرکم آمدنی سے کورونا بھی متاثر نہیں ہوتی۔

حال میں کورونا میں اضافے کی وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ لاک ڈاؤن ہماری اشرافیہ کے لیے نعمت غیر مترقبہ بن کر آیا۔ دن بھر آرام رات بھر آرام نہ کورونا کا خطرہ نہ آمدنی میں کمی کا ڈر۔ اس لیے کہ کاروبار میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سرمایہ کار کو کاروبار میں نہ سرمایہ لگانا پڑتا ہے نہ منافع کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے دولت میں خودبخود اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

ہماری سیاسی ایلیٹ کا ایک بڑا حصہ کورونا کو انجوائے کر رہا ہے اور عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے دوسری طرف پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے غریب آدمی کورونا کے خوف کو پس پشت ڈال کر انتہائی نامساعد حالات میں شدید رسکی جگہوں پر کام کر رہا ہے اور موت کا شکار ہوکر اپنے بچوں کو یتیم بنا رہا ہے۔

خدا غریب اور ایماندار انسانوں کا دوست ہوتا ہے اس حوالے سے غریب پر اللہ کا کرم زیادہ ہونا چاہیے لیکن کہا جاتا ہے غریب گنہگار ہوتا ہے اس لیے اللہ اس پر مہربان نہیں ہوتا۔ ایسی بات نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ خدا ظلم اور ناانصافی کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے اور ظلم اور ناانصافی کے خلاف لڑنا اصلی جہاد ہے۔ لیکن بادشاہوں کے دور سے عبادت گاہوں میں اماموں کو یہ سکھایا گیا کہ اے اللہ تو بادشاہ سلامت کی عمر میں اور اقتدار میں اضافہ فرما ان کے دشمنوں کا منہ کالا کر وغیرہ وغیرہ۔

اگرچہ شاہوں بادشاہوں کا دور ختم ہو گیا لیکن ملک کا دولت مند طبقہ اپنی دولت کے زور پر آج بادشاہوں سے بڑا بادشاہ بنا ہوا ہے اور بادشاہوں سے زیادہ معاشی ظلم کر رہا ہے بے شک آج بھی دیہی علاقوں میں جاگیردار طبقہ بادشاہوں سے زیادہ ظلم غریب عوام پر کر رہا ہے اور پروپیگنڈا یہ کرتا ہے کہ ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم ہوئے زمانہ ہو گیا۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے جس کا مقصد اپنے طبقے کو عوام کی نفرتوں سے بچانے کے علاوہ کچھ نہیں۔

دنیا میں جب سے شاہوں اور بادشاہوں کا دور شروع ہوا مسجدوں میں خطبہ بھی انھی کے نام پڑھا جانے لگا اب چونکہ شاہوں اور بادشاہوں کا دور ختم ہو گیا ساری دنیا کے غریب غربت سے نجات کی دعا کرتے ہیں۔ اب غریب طبقات پر امرا کے مظالم شاہوں سے زیادہ ہوتے ہیں ایک سیٹھ ایک دولت مند ایک بنگلہ بناتا ہے تو پچاسوں غریب مزدور اس کے پاس کام کرتے ہیں۔ گرمی، دھوپ، سردی، بارش کوئی موسم ہو غریب مزدوروں کو کام کرنا پڑتا ہے کورونا کی وجہ سے غریب مزدور کام نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ ہیں وہ مظالم جو غریب طبقات صدیوں سے سہہ رہے ہیں اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔

چونکہ سیاست اور حکومت پر ان ظالموں کا قبضہ ہے لہٰذا کوئی دادرسی بھی ممکن نہیں۔ ایوب خان کے دور میں مل مالکان نے اپنی فیکٹریوں اور کارخانوں میں جیلیں بنا رکھی تھیں جہاں مزدوروں کو سزائیں دے کر رکھا جاتا تھا ایوب خان کے دور کے مظالم مختلف تھے آج کے دور کے مظالم مختلف ہیں۔ مظالم کرنے والے بدل جاتے ہیں لیکن مظلوم نہیں بدلتے نہ ظالموں کے ظلم بدلتے ہیں بے چارہ غریب مزدور اس لیے کان دبا کر یہ سارے مظالم سہتا ہے کہ اسے اس کے بزرگوں نے یہی بتایا کہ یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں۔

تقدیر اور قسمت کو سیکڑوں سال سے غریب کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ کام خود دولت مند طبقات نہیں کرتے بلکہ سادہ لوح عوام کے ذریعے کراتے ہیں۔ چونکہ یہ باتیں مقدس مقامات سے کی جاتی ہیں لہٰذا ان پر غریب طبقات کو یقین آجاتا ہے۔ لیکن اب یہ طبقاتی ظلم کی کہانی اس قدر لمبی ہوگئی ہے کہ اب اسے ختم ہوجانا چاہیے۔ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ انسان ہی کی طرح پیدا ہوتا ہے فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ امیر گھرانے میں پیدا ہونے والا امیر کا بچہ کہلاتا ہے اور ٹھاٹھ کا بچپن گزارتا ہے اور غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ تکلیفیں اٹھاتا ہے اور غریب ماں باپ بھائی بہنوں کے ساتھ انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارتا ہے۔

کیا اس ظالمانہ نظام کو ختم ہونا چاہیے؟ ہر غریب اس سوال کا ایک ہی جواب دے گا ہاں۔ اس وحشیانہ ظالمانہ نظام کو جتنی جلد ممکن ہو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس نظام کی جڑیں ہزاروں سالوں میں گڑھی ہوئی ہیں کیا وہ آسانی سے ختم ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ "نہیں "۔ لیکن اس کی ابتدا کہاں سے کی جائے؟ مسجدوں، کلیساؤں، مندروں، گرجاؤں اور عبادات کی جگہوں سے کہ اے اللہ تو اس ظالمانہ طبقاتی نظام اور اس کے مظالم کا خاتمہ کردے جو لوگ دن رات محنت کر رہے ہیں انھیں سکون اور آرام کے ساتھ عزت کی زندگی دے۔