Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. General Assembly Ke Sadar Ki Saaf Goi

General Assembly Ke Sadar Ki Saaf Goi

اقوام متحدہ کی جنرل سمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے کہا کہ فلسطین پر بے عملی سے اقوام متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وولکن بوزکر نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کریں۔ بوزکر نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی تک جنرل اسمبلی چین سے نہیں بیٹھے گی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران یہ بھی کہا کہ کشمیر، فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کے سربراہ بین الاقوامی مسائل پر بہت محتاط انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ متحارب ملکوں کے سربراہ لگی لپٹی اور محتاط انداز میں گفتگو کو اپنی ڈپلومیسی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

بوزکر نے بغیر کسی تحفظ کے صاف کہا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی بے عملی اوام متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کی جارحیت کے بعد جب حماس نے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی تو صورتحال ایسی خراب ہوئی کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ ہونا پڑا ورنہ اسرائیل کبھی جنگ بندی جیسی صورتحال پر راضی نہیں ہوتا اس بار اسے جنگ بندی پر راضی ہونا پڑا یہ ایک تبدیلی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے لگ بھگ پون صدی پرانے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے ملکوں کے مسائل حل کرنے کی ذمے دار اقوام متحدہ اگر پون پون صدی پرانے مسئلے حل کرانے میں ناکام رہتی ہے تو اس کے وجود کا جواز کیا ہے، فلسطین کے عوام آج غزہ کی ایک پٹی پر بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ یہودی ہٹلر کے دور میں بڑی تباہی کے شکار تھے، وہ بھی فلسطینیوں کی طرح بے وطن تھے، یہودیوں کی دربدری کا امریکا سمیت مغربی ملکوں نے نوٹس لیا اور ان کو ایک وطن اسرائیل دلا دیا لیکن اسرائیل دراصل فلسطینیوں کی بے وطنی پر تعمیر ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ مغرب کے ترقی یافتہ ملک بڑے انصاف پسند ہوتے ہیں۔

کیا یہودیوں کو بسانے کے لیے فلسطینیوں کو اجاڑنا انصاف پسندی ہے؟ اسرائیل کی آزادی کا عالم یہ ہے کہ وہ جب چاہے معمولی سے معمولی بات پر اپنے لڑاکا طیارے غزہ بھیج دیتا ہے اور یہ طیارے بمباری کرکے فلسطینیوں کا خون بہاتے ہیں۔ یہ سلسلہ 70-72 سالوں سے جاری ہے اور اقوام متحدہ سمیت کوئی ادارہ غزہ میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو ان کے وطن فلسطین میں آباد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حماس کسی نہ کسی طرح اسرائیلیوں سے برسر پیکار رہتی ہے، اسرائیل حماس کا بہت بڑا دشمن ہے لیکن حماس اب اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ وہ اپنے طور پر اسرائیل کے مظالم کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔

حالیہ جنگ میں حماس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو اس حد تک کارنر کیا کہ سرائیل جو حماس کا نام سننا گوارا نہیں کرتا تھا وہ آج جنگ بندی پر مجبور ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہونے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر یہ الزام آتا ہے کہ جنرل اسمبلی اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہی ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اب فلسطینی صرف اسرائیل کے جیٹ فائٹرز کی بمباری سہنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس کے ظلم کی مزاحمت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

جہاں تک کشمیر کا مسئلہ ہے کشمیری بھی فلسطینیوں کی طرح ظلم کا شکار ہیں۔ جس طرح فلسطینیوں پر اسرائیل ظلم کے پہاڑ توڑتا رہا ہے اسی طرح بھارت کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم سنجیدگی سے اس صورتحال کا یعنی فلسطینیوں اور کشمیریوں کی بے بسی کا جائزہ لیں تو ایک بنیادی بات سامنے آتی ہے کہ یہ سارا کھڑاگ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم کا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ متنازع مسائل میں صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے جب کہ کشمیر میں اس کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے آئینی طور پر بھارت کا ایک حصہ بنا دیا گیا اور بھارتی ہندوؤں کو کشمیر میں آباد کرنے کا بہت واضح پروگرام پیش کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں بھارتی کشمیر میں بس رہے ہیں اور اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو ڈر ہے کہ کشمیری مسلمان کشمیر میں اقلیت میں نہ آجائیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے اس حوالے سے واضح موقف دیا ہے کہ متنازعہ علاقوں میں ایسی تبدیلیاں نہ کی جائیں کہ اصل صورتحال ان تبدیلیوں سے متاثر ہو۔

جہاں اس قسم کی متنازعہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کا حل رائے شماری میں تلاش کیا جاتا ہے۔ رائے شماری کشمیریوں کا دیرینہ مطالبہ ہے اور بھارتی حکمرانوں کی طرف سے کشمیر کی صورتحال میں بنیادی اور معنوی تبدیلیوں کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس مسئلے کو رائے شماری ہی کے ذریعے سلجھایا جائے۔ جہاں بھی اس قسم کی صورتحال پیدا ہوتی ہے وہاں رائے شماری ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔