عمران خان کا اندازہ بالکل درست تھا کہ "جب میں برسر اقتدار آؤں گا تو سب میرے خلاف اکٹھے ہو جائیں گے" اور وہی ہوا، سارے ایک محاذ پر اکٹھے ہوگئے ہیں اور جو سرمایہ ان کے پاس ہے وہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
ملک بھر میں ٹرینڈ اور تربیت یافتہ افراد حکومت کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں اور ان کا سب سے بڑا بہانہ مہنگائی ہے جس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے اور اس کا سارا غصہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے اور بالکل درست ہوتا ہے کیونکہ غریب طبقے کی روزمرہ استعمال کی ہر چیز کی قیمتوں کو آگ لگ گئی ہے سبزی، دال غریب کی غذا تھی اس کو بھی منافع خوروں نے آسمان پر پہنچا دیا۔
جن کی کمائی لاکھوں روپے روزانہ ہوتی ہے مہنگائی ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ مرغی جیسی عام استعمال کی چیزکی قیمتوں کا عالم یہ ہے کہ رات کو اگر مرغی تین سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہو تو صبح وہی مرغی چار ساڑھے چار سو روپے کلو فروخت ہوتی ہے۔ کیونکہ مرغی کی قیمتوں کا تعین مرغی کی شارٹیج سے ہوتا ہے نہ خدانخواستہ رات بھر میں مرغی وبائی امراض کا شکار ہوتی ہے بلکہ اوپر اشرافیہ کے کارندوں کا ایک فون آتا ہے کہ آج مرغی ساڑھے چار سو کلو فروخت ہوگی۔ یوں مرغی کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔
پرانے زمانے کے ماہرین معیشت کا خیال تھا کہ قیمتوں خصوصاً اشیا صرف کی قیمتوں کا تعین طلب اور رسد کے پس منظر میں ہوتا ہے اور یہی درست بات ہے لیکن بادشاہوں کی حکومتوں میں طلب اور رسد کے آؤٹ ڈیٹڈ فارمولے ناکام ہوگئے ہیں۔ اب اشرافیہ طلب و رسد کے جھنجھٹوں میں نہیں پڑتی بلکہ میز سے موبائل اٹھا کر ایک فون کر دیتی ہے کہ آج مرغی اس قیمت پر فروخت ہوگی۔ سو یوں قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ بے چارے صارف حیران کہ رات ہی رات میں کیسا جادو چلتا ہے کہ تین سو روپے بلکہ دو ڈھائی سو روپے کلو کی چیز صبح چار سو ساڑھے چار سو کلو ہو جاتی ہے۔
اب وہ نہ سبزی کی طرف جا سکتا ہے نہ بڑے یا چھوٹے گوشت کی طرف کیونکہ اشرافیہ کے کارندے ایک فون کردیتے ہیں اور مارکیٹ میں آگ لگ جاتی ہے۔ ٹی وی آن ہے اور وزیر اعظم کے بیان کی یہ پٹی چل رہی ہے کہ "سب کو معلوم ہے کہ سینیٹ میں پیسہ چلتا ہے" حضور پیسہ تو چلتا ہے آپ کس مرض کی دوا ہیں؟ آپ اس ملک کے وزیر اعظم یعنی انتظامیہ کے سربراہ ہیں آپ قیمتوں اور کرپشن کی خوش خبریاں ہی سناتے رہیں گے یا ان کے گلوں میں رسیاں بھی ڈالیں گے۔
آپ ایک بیان جاری کردیں کہ آج سے مرغی ڈھائی سو روپے کلو فروخت ہوگی تو پھر عوام آپ کے زندہ باد کے نعرے لگائیں گے اور مارکیٹ میں مرغی کا گوشت ڈھائی سو روپے فروخت ہوگا آپ کی جے جے کار ہوجائے گی۔ تاجر طبقے کی یہ مجبوری ہے کہ وہ مرغی کو زیادہ دن پنجرے میں بند نہیں رکھ سکتا اسے ہر حال میں مرغی بیچنا ہے یا آپ عوام سے یہ اپیل کریں کہ عوام دو ہفتے مرغی نہ کھائیں پھر دیکھیں، منافع خوروں کا کیا حشر ہوتا ہے۔
عوام سے لوٹا ہوا یہ پیسہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرکے حکومت کے خلاف پروپیگنڈے میں لگتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام نے ایلیٹ کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ جتنی چاہے دولت رکھ سکتے ہیں۔ یہ خدا کا قانون نہیں انسان کی ذلالت ہے سرمائے یعنی نجی ملکیت کو محدود کردیں پھر دیکھیں یہ طبقہ کیا کرتا ہے؟ اس طبقے کو قابوکرنے کے سو طریقے ہیں، ان کے انکم ٹیکس کی شرح دگنی کر دیجیے عوام کو بتائیں کہ یہ پیسہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے میں لگایا جائے گا مثلاً آٹا سستا کرنے میں۔
ان کے ایوانوں میں کروڑوں روپے مالیت کی چمچماتی ہوئی کاریں کھڑی رہتی ہیں ان گاڑیوں پر ٹیکس چار گنا بڑھا دیجیے۔ عوام ناراض نہیں بلکہ خوش ہوں گے کیونکہ عوام اس طبقے کی لوٹ مار سے نفرت کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اب تعلیمی نظام سب کے لیے ایک جیسا ہوگا اس کے دو بڑے فائدے ہوں گے ایک یہ کہ عام آدمی کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے کیونکہ فیسیں کم ہوں گی دوسرا ایلیٹ کی اولاد کا غرور ختم ہو جائے گا کہ وہ کسی اعلیٰ نسل کی اولاد ہیں اور وہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ طبقاتی تقسیم خدا نے نہیں کی بلکہ یہ انسانوں نے بنائی ہے اس تقسیم کو دولت کی حد بندی سے آزاد کرکے عام آدمی کی انکم میں اتنا اضافہ کیجیے کہ وہ بھی اچھی زندگی گزار سکے اس اقدام سے 22 کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہو جائیں گے۔
عمران خان کو آج کل ایلیٹ بہت تنگ کر رہی ہے اگر غریب آدمی کو خوشحال زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ لوگ آپ کی طاقت بنیں گے۔ اور اشرافیہ کو یہ ہمت نہیں ہوگی کہ وہ عوام دوست لوگوں کو تنگ کرے۔ عام آدمی بہتر زندگی گزارنا چاہتا ہے اب وہ زیادہ دن انتظار نہیں کرے گا فرانس کے عوام کا بھی یہی حال تھا آخر ان کا صبر ختم ہوا اور انقلاب فرانس برپا ہوا۔