Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ghareeb Mulkon Ki Alag Aqwam Muttahida

Ghareeb Mulkon Ki Alag Aqwam Muttahida

روسی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ماسکو امریکا کے میزائل خطرات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ روس کی وزارت خارجہ نے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورس ٹریٹی آئی این ایف معاہدے سے امریکا کے باہر نکلنے کے ایک سال پورا ہونے کی مناسبت سے ایک بیان جاری کیا ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دنیا میں امریکا کے کم اور متوسط دوری تک مار کرنے والے میزائلوں کی تعیناتی علاقے اور دنیا کی سیکیورٹی کو سنگین نقصان پہنچا رہی ہے، روسی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا کے اس اقدام سے اسلحے کی دوڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ روس اپنی سرزمین کے خلاف مزید میزائل خطرات کو جو اس ملک کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل ہیں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ آئی این ایف معاہدے میں امریکا اور روس کو زمین سے مار کرنے والے 500 سے ایک ہزار اور ایک ہزار سے پانچ ہزار تک کی دوری تک مار کرنے والے میزائل بنانے اور اسے رکھنے سے روکا گیا ہے۔

روس اور امریکا دنیا کے دو ایسے بڑے ملک ہیں جن کے اشارہ ابرو پر ہاں نہیں میں اور نہیں ہاں میں بدل جاتے ہیں۔ ان دو ملکوں نے بین الاقوامی سطح پر دنیا کو پرامن بنانے اور حق و انصاف کی برتری قائم کرنے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا، اس کے بجائے ہر مرحلے پر شرمناک کردار ادا کیا۔ آج روس کو امریکی میزائلوں سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کیا امریکا کو روسی میزائل سے اسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے؟

اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے سارے اختیارات یہ دونوں ملک اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں یہ اختیارات امریکا کے ہاتھوں میں تھے یہ چھوڑ پکڑ کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ دنیا کے امن اور روس کی سلامتی کے لیے صرف امریکا اور روس کے درمیان خطرات کی کمی سے کوئی ملک چین کی نیند نہیں سو سکتا۔ امریکی صدر اور روسی رہنما اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان دونوں کی سیاست کے جانبدارانہ ہونے کی وجہ سے دنیا کے سارے مسائل حل نہیں ہو پا رہے ہیں۔

افغانستان کا ایشو ہو، شمالی کوریا کامسئلہ، کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا مسئلہ ان بڑے ملکوں کی چھوٹی سیاست نے ہر جگہ جنگوں خون خرابوں کی راہ ہموار کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام متنازع مسائل کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے کس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات ہیں جو ان مسائل کے حل کے سامنے آہنی دیوار بنے کھڑے ہیں؟

ماضی میں جب دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی روس کا کردار عموماً مثبت رہا اور وہ کمزور اور مظلوم ملکوں کی حمایت میں آگے رہا لیکن دنیا جب یونی پولر سے ملٹی پولر ہوگئی تو دنیا کے نظام میں ایک تبدیلی آئی بڑی طاقتوں کی اجارہ داریوں میں کمی آئی لیکن اب بھی حال یہ ہے کہ کشمیر ہو یا فلسطین، افغانستان ہو یا لبنان، شمالی کوریا ہو یا جنوبی کوریا ان سارے ممالک کی سیاست میں روس اور امریکی مفادات کو اولیت حاصل ہے اور ان مسائل کے حل نہ ہونے کی ذمے داری بھی انھی بڑے ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورموں پر سامراجی ملکوں کی اجارہ داری ہو تو غریب اور پسماندہ ملکوں کو انصاف کہاں مل سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ ایک بڑا علاقہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس علاقے کو تیل کی دولت کے ساتھ دیکھ کر سامراجی ملکوں کے منہ میں پانی بھر آیا انھوں نے تیل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس علاقے پر اسرائیل کو مسلط کیا اور اسے اس قدر طاقتور بنادیا کہ تمام عرب ملک اس کی چھتر چھایا میں آگئے بلکہ اس کے باج گزار بن گئے پورے عرب ملک مل کر بھی اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے فلسطین کا مسئلہ سامراجی ملکوں کا تحفہ ہے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی میز پر پڑا سڑ رہا ہے ہزاروں فلسطینی جان سے گئے اور جو رہ گئے وہ یا تو ساری دنیا میں دربدر ہوگئے یا غزہ کی پٹی پر خوار ہو رہے ہیں اسرائیل جب چاہتا ہے یہاں رہنے والے فلسطینیوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہودیوں کو رہنے کے لیے کوئی ملک نہ رہا اور ہٹلر نے ان کا صفایا کردیا تو امریکا، برطانیہ سمیت مغربی ملکوں نے انھیں اسرائیل بنا کر دیا۔ اسرائیل کے قیام سے جو لاکھوں فلسطینی بے گھر بے وطن ہوگئے ان کے لیے سامراجی ملکوں کے دل میں کوئی جگہ نہیں آج فلسطینی یہودیوں سے زیادہ ابتر حالت میں ساری دنیا میں مہاجر بنے ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔

اسے کیا اتفاق کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ہی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ سامراجی ملکوں کو خوف لاحق ہے کہ اگر مسلمان ملک متحد ہوگئے تو ایک بہت بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو سامراجی مفادات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اسی خوف کے مارے سامراجی ملکوں نے مسلمان ملکوں میں ایسی پھوٹ ڈالی کہ اب ان میں اتحاد ایک خواب بن گیا۔ مسلمانوں میں انتشار ہی نہیں پھیلایا جا رہا ہے بلکہ انھیں آپس میں لڑوایا جا رہا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ مسلم ممالک میں اتحاد کے بجائے آپس میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔

یہ ہیں وہ مایوس کن حالات جو پسماندہ ملکوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ایک علیحدہ اقوام متحدہ بنائیں اور اس پلیٹ فارم سے انصاف کے حصول کے لیے کوشش کریں۔ یہ فکر اس لیے پیدا ہوگئی ہے کہ پسماندہ ملکوں خصوصاً مسلم ملکوں کے لیے انصاف کا حصول ممکن نہیں رہا۔ اس حوالے سے ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا سمیت وہ تمام ملک جو موجودہ جانبدار اقوام متحدہ سے مایوس ہیں حصول انصاف کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ہر مشکل کام آہستہ آہستہ آسان ہوتا چلا جاتا ہے، اگر سامراجی ملک اپنی داداگیری نہ چھوڑیں تو اقوام متحدہ ایک لاوارث ادارہ بن کر رہ جائے گی۔