Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ghareeb Voter Ka Mustaqbil

Ghareeb Voter Ka Mustaqbil

دنیا سے شاہوں، ملکاؤں، شہزادوں، شہزادیوں، راجوں، مہاراجوں، رانیوں، مہارانیوں کے دور کو ختم ہوئے سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا لیکن یہ کمال کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں خاندانی حکمرانیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور اس کے ہمارے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ان شاہوں، شہزادوں، راجکماریوں نے اقتدار کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جب کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ جمہوری دور ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جمہوریت شاہی سے بہتر طرز حکمرانی ہے۔ چالاک ایلیٹ بڑی ہوشیاری سے معاشرے میں ایلیٹ بن کر بیٹھے ہیں۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ انسانی حقوق خاص طور پر غریب عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر انھیں غلام بنائے رکھا ہے۔

یوں حکمرانی کا حق ایک چھوٹی سی ایلیٹ کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ یہی چند خاندان حکومت میں بھی ہوتے ہیں اور اپوزیشن میں بھی۔ اقتدار کے مالک عوام ہیں لیکن 72 سال سے اقتدار چند خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ کے محلوں میں قید ہے اور اقتدار کے حقیقی مالک غریب عوام مزدور اور کسان سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غریبوں کو یہ بات بتانے والا کوئی نہیں کہ جمہوریت اکثریتی عوام کی حکمرانی کا نام ہے۔ ایلیٹ والوں سے اقتدار چھیننا اور خاندانی حکمرانی کا خاتمہ کرنا جمہوریت کی شرط اولین میں شامل ہے۔

چونکہ ہم جس نظام میں زندہ ہیں اسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے اور اس نظام میں پیسہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں جن میں غریب عوام مزدور کسان سب شامل ہیں ان کے علاوہ مفکر ہیں دانشور ہیں ادیب ہیں شاعر ہیں یہ معاشرے کی کریم ہوتی ہے اور ان میں حکومتیں چلانے یا حکومتوں کے لیے اقتدار کی راہ متعین کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن ہماری بددیانت اشرافیہ نے اس طبقے کو سیاست کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا ہے چند کرائے کے دانشوروں مفکروں کو بھاری معاوضہ دے کر ان کی خدمات اپنی یعنی ایلیٹ کے فائدے کے لیے حاصل کر لیتے ہیں اور انھیں صرف عوام اور خواص کو دھوکا دینے کے لیے رکھا جاتا ہے۔

مفکر دانشور، ادیب، شاعر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کی ترقی پسندانہ راہ کا تعین کرتے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ حقیقی دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، صحافیوں کو اقتدار کے قریب آنے نہیں دیا جاتا۔ جو حقیقی دانشور ہیں، مفکر ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں ان سیاسی لٹیروں سے دور رہتے ہیں کہ ان کی قربت سے ان کا دامن داغدار ہو جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایلیٹ کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں۔

شاہوں کے زمانے میں تو ایک آدھ شہزادہ ہوا کرتا تھا اس کے بھی کئی دشمن ہوتے تھے یہاں یعنی ہمارے ملک میں حالت یہ ہے کہ شہزادوں شہزادیوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور ہر شہزادہ اور شہزادی اپنا الگ بینک بیلنس بنا رہی ہے۔ اس طریقۂ واردات کی وجہ سے عوام کی محنت کی کمائی ان لٹیروں کے بینکوں میں جا رہی ہے یہ "جدید جمہوریت" کی وہ سوغات ہے جو ایلیٹ کو کروڑ پتی بنا رہی ہے اور ایلیٹ کی یہ اولاد عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ لوگ، وہ دانشور وہ اہل علم کہاں ہیں جو جمہوریت کی مدح سرائی میں دل و جان سے لگے رہتے ہیں اور "مہربانوں " کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔

اس لوٹ مار کے نظام کو بدلنے کے لیے ویسے تو کئی نسخے ہیں لیکن ایک مستحکم اور منطقی طریقہ یہ ہے کہ اب غریب عوام مزدور کسان اس حوالے سے اپنا طبقاتی کردار ادا کریں اور اپنے طبقے کے ان تعلیم یافتہ باشعور نوجوانوں کو آگے لائیں۔ اپنے طبقے کے باشعور لوگوں کو یہ بتائیں کہ جو بھی جمہوریت ہمارے ملک میں جاری ہے اس میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا ہی کامیاب ہوتا ہے اور غریب طبقات کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایلیٹ پچاسوں طریقوں سے ووٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی اور وہ اپنے "پرانے تجربات" کی روشنی میں اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہو گی لیکن اس سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ غریب ووٹر ایلیٹ کی چالبازیوں سے ہوشیار ہوتا چلا جائے گا۔ یوں مستقبل کے الیکشنوں میں غریب طبقات ایلیٹ کی چالبازیوں کو بڑی حد تک روکنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے غریب تعلیم یافتہ طبقات کو اپنے طبقے میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کا موقعہ ملے گا۔ اور غریب عوام مزدور اور کسان مستقبل میں ایلیٹ کی چار سو بیسیوں کو ناکام بنانے کے اہل ہو جائیں گے۔

ہمارا الیکٹرانک میڈیا ملک کے چپے چپے تک پہنچتا ہے۔ اگر الیکٹرانک میڈیا عوام میں بیداری پیدا کرنے کی منظم اور مربوط مہم چلائے تو غریب ووٹر ایلیٹ کی چالبازیوں سے نہ صرف واقف ہو جائیں گے بلکہ ایلیٹ کی بدعنوانیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ عام کالجوں میں غریب طبقات بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ اگر یہ طلبا عوام میں شعور پیدا کرنے کی منظم اور مربوط مہم چلائیں تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں غریب اسمبلیوں میں پہنچنے کے قابل ہو سکتا ہے۔