دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں میں جہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم ہے ہر سیاسی کام کا معاوضہ ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارا ملک بھی بدقسمتی سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کا حامل ملک ہے جہاں منتخب نمایندوں سمیت ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے، بشرطیکہ سیزن ہو، آج کل ہمارے ملک میں سینیٹ کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے سرگرمیوں اور ووٹ کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سینیٹ کے ایک ووٹ کی قیمت 50 سے 70 کروڑ لگ رہی ہے اس تناظر میں امید کی جا رہی ہے کہ الیکشن میں ایک ووٹ کی قیمت اربوں میں چلی جائے گی۔ اس قیمت میں ووٹ نہ مزدور کسان خرید سکتا ہے نہ مڈل کلاسر خرید سکتا ہے صرف ارب پتی سیاستدان ہی اتنے قیمتی ووٹ خرید سکتا ہے۔
اس بے ایمانی سے بچنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے یہ تجویز دی تھی کہ الیکشن اوپن طریقے سے ہو لیکن ہماری اپوزیشن اوپن ووٹنگ کے بجائے خفیہ ووٹنگ پر اڑی ہوئی ہے۔ ممتاز سیاستدان جانتے تھے کہ اگر خفیہ ووٹنگ ہوگی تو ایسا سیاسی جمعہ بازار لگے گا کہ کروڑ پتی بھی ایک ووٹ نہیں خرید سکیں گے سوائے ارب پتیوں کے۔ بہرحال اوپن اور خفیہ ووٹنگ کی بحث جاری ہے اور امید یہی کی جا رہی ہے کہ خفیہ ووٹنگ کا نظریہ جیت جائے گا اور ووٹ کی قیمت خرید میں ناقابل یقین اضافہ ہو جائے گا۔
پی ڈی ایم کو چلانے والی صرف دو بڑی جماعتیں ہیں ایک مسلم لیگ (ن) دوسری پیپلز پارٹی۔ ماضی کی کرپشن کے حوالے سے سیاسی جماعتیں سرفہرست رہی ہیں۔ پی ڈی ایم خفیہ رائے شماری کے ذریعے سینیٹ انتخابات پر کیوں اڑی ہوئی ہے، اس کا اندازہ اس ویڈیو سے ہو سکتا ہے جو مارکیٹ میں دھوم مچائے ہوئے ہے۔
اقتدار ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کا ایک واضح طریقہ کار ہوتا ہے اور ہر پارٹی اس طریقہ کار کے مطابق انتخاب لڑتی ہے اور انتخابات جیت کر اقتدار میں آتی ہے۔ اگر اس طریقہ کار کے ساتھ کوئی جماعت انتخابات جیت کر اقتدار میں آتی ہے توعوام اس کی حمایت کرتے ہیں اگر اس کے برخلاف کرتے ہیں تو عوام مخالفت کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان اصولوں کی خلاف ورزی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام کے اعتماد سے دور ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان نے کہا ہے کہ خفیہ رائے دہی میں ہمیں اور زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے پاس پبلسٹی کی ایک بڑی اور ماہر مشینری ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی حلقوں میں یہ قیاس عام ہے کہ تحریک انصاف یہ الیکشن جیت جائے گی۔ اہل دانش اور اہل علم کو یہ یقین اس لیے ہے کہ تحریک انصاف ایک مڈل کلاس پارٹی ہے اور سینیٹ میں نیک نامی بڑے کام آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ خفیہ ووٹنگ کے اپنے منصوبے کی منظوری کے لیے غیر جمہوری ضد کا مظاہرہ کرے۔ یہ بات ایک عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ خفیہ ووٹنگ ہوگی تو ووٹوں کی خرید و فروخت آسان اور عام ہوگی۔ عمران خان پر لاکھ الزام لگائیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر مسائل پر خان کی رائے مثبت اور سچائی پر مبنی ہوتی ہے اوپن بیلٹنگ میں بھی خان کا موقف درست ہے لیکن ہماری اپوزیشن جماعتی مفادات پر مبنی شرط پر ایسے ڈٹ گئی ہے کہ اگر خفیہ بیلٹنگ نہ ہوگی تو سارا جمہوری نظام تلپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ اسی حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم ایک جمہوری اتحاد نہیں ہے بلکہ ایک ڈکٹیٹر پارٹی ہے جو ہر قیمت پر اپنا موقف منوانا چاہتی ہے۔
پی ڈی ایم کی سیاست ہجوم کی سیاست ہے جس میں سیاسی کارکن برائے نام ہوتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کی غلط ایشوز پر حمایت کی جائے تو ملک میں جمہوریت کی بالادستی خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہ بات اب ایک عام آدمی بھی سمجھ رہا ہے کہ اپوزیشن ہر قیمت پر اقتدار میں آنا چاہتی ہے، کیونکہ اگر وہ اقتدار سے باہر رہی اور تحریک انصاف برسر اقتدار آگئی تو ان کے لیے مسائل میں اضافہ ہو گا اور یہ صورتحال اپوزیشن کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں وہ آخر تک خفیہ رائے دہی کے لیے ضد کرتی رہے گی جو تحریک کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی۔
دنیا میں ہر میدان میں برائیوں سے بچتے ہوئے کام کرنے کے لیے کچھ اصول کچھ ضابطے بنائے جاتے ہیں جمہوری معاشروں میں عوام کی رائے کی اہمیت منوانے کے لیے الیکشن کا راستہ اختیار کیا گیا۔ ہر جمہوری ملک میں دو ہاؤس ہوتے ہیں ایک قومی اسمبلی دوسرا سینیٹ۔ ہمارے ملک میں بھی یہ دو قانون ساز ادارے ہیں یہ ادارے اس حوالے سے مقدس ہوتے ہیں کہ ان اداروں میں ملک کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے لیکن ان اداروں کو اشرافیہ نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
آج کل2018کے الیکشن میں ووٹ کی کھلی خرید و فروخت کی ویڈیو نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، اس ویڈیو میں سینیٹ کے الیکشن میں ہونے والی ووٹ کی خرید و فروخت کی تفصیل بتائی گئی ہے ووٹ اگر خفیہ ہوں گے تو ووٹ کی خرید و فروخت لازمی ہوگی۔ اس برائی سے بچنے کے لیے عمران خان نے اوپن بیلٹنگ کی تجویز پیش کی جو ووٹ کی خرید و فروخت کو روکنے کا ایک موثر ذریعہ تھا، لیکن "شرفا" کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی گئی اور کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہی ہوگا کہ خفیہ ووٹنگ کے حامی ووٹوں کی خرید و فروخت چاہتے ہیں۔ یہ موقف سینیٹ میں اس کی شکست کا ثبوت ہے۔