اس وقت پوری دنیا سہمی ہوئی ہے، کورونا کی دہشت نے ساری دنیا کو نیم پاگل کردیا ہے۔ امریکا، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس وباء سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور وہ اس پر قابو پانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر کے اس کی دوا کی ایجاد کے لیے کوشاں ہیں۔
اس وباء کی ویکسین کب تک تیار ہوتی ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن جب تک اس کی ویکسین تیار نہیں ہوتی انسانوں کے مرنے کی شرح یونہی بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ نظر نہ آنے والے اس چھوٹے سے وائرس نے پوری انسانی ترقی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
پاکستان میں بھی اس وباء سے ہزاروں لوگ بیمار ہیں، ہزاروں جان سے جا چکے ہیں لیکن صورتحال میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی لوگ بیمار ہو رہے ہیں، لوگ جان سے جا رہے ہیں لیکن کوئی بھی اس وباء سے بچااؤ کے لیے احتیاط نہیں کر رہا۔ جوں جوں اس وباء سے مرنے والوں یا متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، لوگوں کی بے احتیاطی بھی اسی تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
وفاقی حکومت بار بار لوگوں سے یہ اپیل کر رہی ہے کہ اس وباء سے بچاؤ کا واحد راستہ حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ غالباً سندھ حکومت نے کمشنر آفس کا ایک ٹیلیفون نمبر دیا ہے کہ اگر کورونا کے حوالے سے کچھ معلومات درکار ہیں تو ضرورت مند اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ اس کمشنر نمبر پر ایک خاتون موجود ہوتی ہیں لیکن وہ نہ ڈاکٹر ہوتی ہیں نہ ماہر صحت، لہٰذا وہ مسئلے کا حل نہیں بتا سکتیں۔ یہ ظالم بیماری دن کے 24 گھنٹے میں کسی وقت بھی انسان کو دبوچ لیتی ہے نہ دن دیکھتی ہے نہ رات۔
ہمارے ملک میں چونکہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے لہٰذا ڈاکٹر حضرات نے بھی کلینک کھولنا بند کردیا ہے جس کی وجہ سے عام بیمار آدمی ڈاکٹروں کے مشورے سے محروم ہے۔ اس حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے کہ یونین آفس کی سطح پر کم ازکم دو ماہر ڈاکٹروں کو بٹھایا جائے جو کم ازکم مریضوں کو اور ان کے لواحقین کو معقول مشورے دے سکیں۔
مثلاً ایک شخص کا کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آتا ہے اسے نہ بخار ہے نہ نزلہ۔ اسے صرف شدید کھانسی ہے وہ چاہتا ہے کہ اسے کھانسی سے آرام آئے یہ بات تو طے ہے کہ کورونا کا اب بھی سرے سے کوئی علاج نہیں لیکن جب ہم اخباروں میں یہ پڑھتے ہیں کہ آج چار سو کورونا مریض صحت یاب ہوکر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو فطرتاً یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ جس بیماری کا کوئی علاج ہی نہیں اس بیماری سے چار سو افراد صحت یاب ہوکر اپنے اپنے گھروں کو کیسے چلے گئے یہ لوگ کیسے صحت یاب ہوئے۔
یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں ساٹھ فیصد عوام ایسے ہیں جو عام طبی سہولتوں سے محروم ہیں اگر کورونا جیسی لاعلاج بیماری میں کوئی مبتلا ہوتا ہے تو اس کا علاج کیسے ہوگا؟
یہ بات میں اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ میرے ذہن میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چار سو کورونا مریض صحت مند ہوکر اگر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بیماری کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہے۔ خواہ وہ احتیاط ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس احتیاط کی نوعیت کیا ہے؟ عام آدمی احتیاط کے حوالے سے بہت کم معلومات رکھتا ہے اگر احتیاط کا مطلب ایک دوسرے سے تین یا چھ فٹ دور رہنا اور ہاتھ نہیں ملانا اور گلے نہیں ملنا ہے تو یہ احتیاط بڑے نہ سہی چھوٹے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔
لیکن کیا اسپتالوں سے صحت یاب ہونے والے چار سو مریض "اسی احتیاط" کے ذریعے صحت یاب ہوئے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے اسپتال کے مریضوں کی احتیاط یقینا مختلف ہوگی۔ یہی وہ سوال ہے جو ہمارے ذہن میں ہے اور چار سو مریضوں کو صحت مند بنانے کا ذریعہ بنا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مریض بوجوہ اسپتال میں ایڈمٹ نہیں ہوسکتے اور ایڈمٹ اس لیے بھی نہیں ہوسکتے کہ اسپتالوں میں بیڈ نہیں ہیں۔ ایسے مریضوں کے لیے کیا انتظام ممکن ہے؟
غریب آدمی کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کورونا کا شکار ہو گیا ہے تو اسی وقت اس کی آدھی جان نکل جاتی ہے، اب اس کی مشکلات کا اندازہ کریں سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اسپتال میں بیڈ نہیں ہیں، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسپتال مریض کے گھر سے بیس پچیس کلو میٹر دور ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے سواری نہیں ملتی اور ملتی ہے تو کرایہ ادا کرنا مریض کے بس کی بات نہیں ہوتی ایسی صورت حال میں مریض کیا کرے؟
اربوں روپوں کی لوٹ مار کرنے والوں کا یہ مسئلہ ہے ہی نہیں آدھی رات کو بڑے سے بڑا ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے۔ مسئلہ غریب طبقات کا ہے وہ کیا کریں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر سرکاری اور رضاکارانہ پرائیویٹ اسپتال میں کورونا ایمرجنسی سینٹر کھولا جائے جو مریض کے فوری ریلیف کے لیے ضروری ادویات وغیرہ کا اہتمام کرے اس ایمرجنسی سینٹر میں شہر کے سارے متعلقہ اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد موجود ہو اور ایمرجنسی کا ڈاکٹر مریض کو جس اسپتال ریفر کرے اس اسپتال میں پہنچانے کے لیے میڈیکل ایمبولینس موجود ہوں۔
اس انتظام میں اربوں روپوں کی ضرورت نہیں بہت کم پیسوں میں یہ انتظام ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہمارا حکمران طبقہ اس میں دلچسپی لے۔ اب ذرا ایمرجنسی انتظام پر ایک نظر، اخبارات میں کورونا ایمرجنسی سینٹر کے ٹیلیفون نمبر دیے جائیں اور ٹی وی پر بھی، اگر علاقوں میں ان ایمرجنسی (کورونا) سینٹر کی تشہیر ہو تو بلاشبہ مریضوں کو انتہائی سہولت حاصل ہوگی اور ضرورت مند مریضوں کو ادھر ادھر دھکے نہ کھانے پڑیں گے۔ کاش ہمارے حکام اور ڈاکٹر حضرات اس کالم کا مطالعہ کرلیں۔