پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے، یہ رابطہ عشروں بعد ہوا ہے، امید ہے کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم اس مخلصانہ دعوت کو قبول کرکے عشروں سے سردمہری کے شکار تعلقات کو ازسرنو استوار کرنے کی کوشش کریں گی۔
دونوں ملک ایک طویل عرصے تک ایک ہی ملک کی حیثیت سے زندہ تھے لیکن 70 کی دہائی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سرد جنگ چلتی رہی، پھر گرم جنگ کے ساتھ پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ 1971 کے بعد یہی صورت حال بحال ہے، پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بارہا تعلقات کی بہتری کی کوششوں کی گئی لیکن بنگلہ دیش کی سردمہری کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی ممکن نہ ہوسکی۔
بدقسمتی سے دونوں ملک ایک احمقانہ سائیکی میں مبتلا ہیں۔ بنگلہ دیش کو شکایت ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے تک بنگلہ دیش کا استحصال کرتا رہا۔ پاکستان کو تو یہ شکایت رہی ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کو نظرانداز کرکے بھارت سے دوستانہ ہی نہیں سفارتی تعلقات بھی بحال کر لیے، یہ شکوے شکایت چلتے رہتے ہیں۔
آج کی دنیا میں سب سے اہم دو ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات ہوتے ہیں، پاکستان بنگلہ دیش سے بوٹ سمیت کئی اشیا درآمد کرتا رہا ہے اور بنگلہ دیش پاکستان سے کاٹن اور کپڑے سمیت بہت سی اشیا درآمد کرسکتا ہے۔ اب پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا، تعلقات میں بہتری کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے خاص طور پر اقتصادی تعلقات میں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں دونوں ملک ایک دوسرے سے زیادتی کی شکایت کرتے رہے، دونوں ملکوں خصوصاً بنگلہ دیش نے پاکستان سے تعلقات میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ پاکستان میں پاکستان کی طرف سے بھی زیادتیاں ہوتی رہیں اور بنگلہ دیش نے بھی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی، بہرحال یہ ماضی کی باتیں ہیں، بنگلہ دیش بھارت سے جغرافیائی حوالے سے جڑا ہوا ملک ہے جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ موجود ہے جو دونوں ملکوں میں اجنبیت کا بڑا سبب ہے۔ دنیا کے ملکوں کے درمیان تعلقات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد بیرونی ملکوں خصوصاً پڑوسی ملکوں سے دوستی کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، آج کی دنیا میں دوستی کا مطلب اقتصادی تعلقات میں بہتری لیا جاتا ہے اور پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اقتصادی روابط کی بڑی گنجائش ہے، اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اقتصادی تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان میں وسعت کی بڑی گنجائش ہے جس کا احساس دونوں ملکوں خصوصاً بنگلہ دیش کو زیادہ ہونا چاہیے۔
اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے کہ آج کی دنیا میں نظریاتی دوستی اتنی اہم نہیں رہی جتنی اقتصادی دوستی اہم ہوگئی ہے۔ 1970 میں جب دونوں حصوں کے درمیان تعلقات بہت خراب تھے تو عابد زبیری کی کوششوں سے پاکستان کے ایک وفد کے دورہ بنگلہ دیش کا پروگرام بنا جس کا مقصد دونوں حصوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا تھا۔ اس دور میں بنگلہ دیش کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن زیر زمین تھے اور گرفتاری کے خوف سے جگہ بدلتے رہتے تھے بھائی عابد زبیری مرحوم نے مجیب الرحمن سے ملاقات طے کی اور مقررہ وقت پر چھپتے چھپاتے غالباً گھاس منڈی گئے لیکن یہ معلوم کرکے افسوس ہوا کہ مجیب الرحمن گرفتاری کے خوف سے جگہ بدل رہے ہیں۔ بہرحال شیخ صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی جس کا بڑا افسوس ہوا۔
ہمارا وفد بنگلہ دیش کے مشہور ہوٹل شاہ باغ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شاہ باغ ہوٹل کا شمار بنگلہ دیش کے بڑے اور معروف ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔ ہمارے وفد میں عابد زبیری کے علاوہ وحید صدیقی، علاؤالدین عباسی، صدر نیپ، کنیز فاطمہ وغیرہ شامل تھے، بنگالی بھائیوں میں بڑا ایکا تھا، ایک بار ہم پان خریدنے کے لیے غالباً موتی جھیل جا رہے تھے کہ ہمارے نوجوان بہاری ڈرائیور نے ایک بنگالہ راہ رو کو ٹکر ماری پھر کیا تھا، بنگالی بھائی مکھیوں کی طرح ہماری گاڑی کے گرد جمع ہوگئے۔ اتفاق سے حاضرین میں سے ایک بنگالی بھائی جاننے والا نکلا اور بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا اور ہماری جان چھوٹی۔ یہ علیحدگی سے ایک سال پہلے 1970کا واقعہ ہے اس وقت دونوں حصوں کے درمیان بہت شدید تناؤ تھا۔
مجیب الرحمن کے چھ نکات کا بہت چرچا تھا۔ اس زمانے میں بھاشانی صاحب نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ تھے، پلٹن میدان میں دونوں حصوں کے درمیان خیر سگالی کے حوالے سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا جس میں طلبا و طالبات کی ایک بہت بڑی تعداد شریک تھی اور ہمیں ڈائس پر جگہ دی گئی تھی۔ جلسہ اتنا بڑا تھا لیکن شدید نظم و ضبط کی وجہ جلسہ پرامن طور پر ختم ہوا حالانکہ جلسے کے دوران شدید بارش ہو رہی تھی لیکن ایک شخص بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا خاص طور پر طالبات گھنٹوں پانی میں بھیگتی رہیں لیکن اپنی جگہوں پر جمی رہیں۔
اس دوران ایک دلچسپ لیکن خطرناک واقعہ ہو گیا، وہ یہ کہ ایک ہوائی جہاز بار بار لینڈ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن لینڈ نہیں ہو رہا تھا، معلوم ہوا کہ جہاز کے پہیے نہیں کھل رہے تھے۔ یہ بات صرف عابد زبیری کو معلوم تھی لیکن انھوں نے کسی کو بتایا نہ تھا بہرحال خدا خدا کرکے ایک جھٹکے کے ساتھ وہیل کھل گئے اور جہاز لینڈ کرگیا، عابد زبیری پسینے میں نہائے ہوئے تھے، جب انھوں نے بتایا کہ جہاز کتنے بڑے حادثے سے بچ گیا ہے تو سارے مسافروں نے خدا کا شکر ادا کیا اور خوف کے عالم میں جہاز سے اتر گئے۔