کورونا نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے، وہیں تعلیم کے شعبے کا بھی حشر نشر کر دیا ہے۔ ایک دن کی غیر حاضری پر شور مچانے والے بچے، اب لگ بھگ نصف سال اسکول بند رہنے سے تعلیم کا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
تعلیمی اداروں کی بندش میں نہ حکومت کا کوئی قصور ہے نہ اساتذہ کا، نہ طلبا کا۔ ایک ایسی خطرناک ناگہانی جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے انسان چڑیوں کی طرح مرتے آ رہے ہیں۔ گزشتہ 24گھنٹوں میں 69 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، متاثرین کی تعداد نئے کیسوں سے3666 ہوگئی ہے۔ متاثرین ایک لاکھ 83 ہزار 300 ہوگئے ہیں۔
اب تک بلاامتیاز سارے عوام پر لاک ڈاؤن مسلط ہوتا تھا، اب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اب صرف بوڑھوں اور بیماروں پر اسمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا، کمیونٹیز سے مل کر حکمت عملی تیار کی جائے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ اب صوبے لاک ڈاؤن کا کہیں بھی تو لاک ڈاؤن نہیں کیا جائے گا کیونکہ لاک ڈاؤن سے سروس سیکٹر تباہ ہو گیا ہے۔ یہاں اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ وزیر اعظم ابتدا سے لاک ڈاؤن کے خلاف تھے لیکن کورونا کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اس لاک ڈاؤن کی حمایت کرنی پڑی، شکر ہے کہ اب کورونا کی تباہ کاریوں میں کمی آ رہی ہے۔
اس خوفناک حقیقت کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس عذاب کا شکار صرف پاکستان نہیں ہوا بلکہ ساری دنیا اس عذاب سے نبرد آزما ہے اور جہاں کورونا کی بھرمار ہے، وہاں تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں، پاکستان میں بھی تعلیمی ادارے بند رہے ہیں۔ تعلیم سے بچوں اور نوجوانوں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے ایک دن تعلیمی ناغے سے طلبا کا بہت نقصان ہوتا ہے جہاں 9 ماہ سے تعلیمی ادارے بند ہوں تو طلبا کو جو تعلیمی نقصان ہوگا اس کا اندازہ مشکل نہیں۔
تعلیمی ادارے اتنے طویل عرصے بند رہے کہ امتحانات لینا بے معنی ہوکر رہ گیا۔ اس لیے طلبا کو بغیر امتحان کے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا۔ حالات کے جبر کی وجہ سے اگرچہ طلبا کو اگلی کلاسوں میں پروموٹ کر دیا گیا ہے لیکن جو تعلیمی نقصان ہو چکا ہے اس کا کسی نہ کسی طرح ازالہ ضروری ہے۔
اس حوالے سے اس حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا امتحانی نظام عموماً یادداشت پر منحصر ہے یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے لیکن اس میں کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں جن سے طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ کیا جاسکے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں طلبا کی پڑھائی سے لے کر امتحانات تک جس بات کو ترجیح دی جاتی ہے وہ ہے طلبا کی ذہنی صلاحیتیں اور رائٹنگ پاور اسی سے طلبا میں صلاحیتیں بڑھتی ہیں۔
خبروں کے مطابق حکومت ایس او پیز کے تحت اسکولز کھولنے پر غور کر رہی ہے۔ اس حوالے سے لاک ڈاؤن میں ایس او پیز کا جو حشر ہوا، اس سے ہم پوری طرح واقف ہیں اگر حکومت ایس او پیز کے تحت اسکول کھولتی ہے تو اس "تعلیمی ایس او پیز" کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اس بگاڑ کے ذمے دار نہ طلبا ہیں نہ عوام اس ساری ستیاناسی کی ذمے داری ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر آتی ہے کیونکہ ان کی ترجیحات میں عوام اور نوجوانوں میں ڈسپلن پیدا کرنا اور ذمے داریوں کا احساس پیدا کرنا ہے ہی نہیں جس کا نتیجہ قوم ایک بھیڑ اور بے ہنگم ہجوم میں بدل گئی ہے۔
پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ حکومت کے کاموں میں خواہ وہ کتنی ہی قومی اہمیت کے ہوں کیڑے نکالنا اور بے ہودہ انداز میں تنقید کرنا اپوزیشن کی ڈیوٹی میں شامل ہے اور ہماری جمہوری حکومتوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپوزیشن کی ہر معقول و غیر معقول تجاویز کو رد کرنا اپنی ذمے داری سمجھتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہم 72 سالوں سے دیکھ رہے ہیں اور بھگت رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست اور حکمرانی پر ایسے چوروں اور لٹیروں کا کنٹرول ہے جو اپنی "ناک" سے آگے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ان کا قول ہے یا "خود اعتمادی" ہے کہ وہ من آنم کہ من دانم کے فلسفے سے آگے بڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک کے طبقاتی معاشرے میں عوام کی جگہ وہ ہے جہاں ایلیٹ جوتے چھوڑتی ہے اگر عوام کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو عوام کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک کو جمہوری کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے جب کہ حکومتوں اور سیاستدانوں کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں جس ملک میں 72 سالوں سے سیاست اور اقتدار پر مٹھی بھر ایلیٹ جو لٹیروں پر مشتمل ہے قابض ہو تو اس ملک کو جمہوری کہنا جمہوریت کی توہین کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا کسی جمہوری ملک میں خاندانی سیاست اور خاندانی حکومتوں کا کلچر نظر آتا ہے اور یہ برطانیہ وغیرہ کی طرح صرف دستوری حکمران نہیں بلکہ سو فیصد اختیارات رکھنے والے حکمران ہیں۔
ملک میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس کی ذمے داری ہے کہ وہ سب سے پہلے ایک بامعنی اور سائنس و ٹیکنالوجی بیس ایسی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرے جو دنیا کی قوموں کے سامنے ہمیں اپنا صحیح مقام دلائے اور سرکاری مدارس کا پورا نظام بدل دے۔ انگلش میڈیم اسکولوں کے نام پر گھٹیا کاروبار کا جو سلسلہ عشروں سے چلا آ رہا ہے اسے ختم کرکے ایک جدید دور کے تعلیمی نصاب کے مطابق انگلش اسکولوں کو ازسرنو منظم کرے تاکہ پاکستان کا تعلیمی نظام سیاسی وڈیروں کے چنگل سے آزاد ہو کر سائنس و ٹیکنالوجی پر استوار ہوسکے۔