ہر ملک میں ایک پرائس کنٹرول کمیشن ہوتا ہے جس کا کام ہر چیز کے دام کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر پہلے بھی لکھا جا چکا ہے، آج مزید لکھنے کی ضرورت یوں پیش آ رہی ہے کہ مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے پٹرول کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اثر ضرورت کی دیگر اشیا پر پڑتا ہے وہ بھی غلط پڑتا ہے۔
ایک لٹر پٹرول پر اگر دو روپے بڑھ جاتے ہیں تو بار برداری کی گاڑیوں پر مشکل سے پندرہ بیس روپے اضافہ ہوتا ہے لیکن تاجر حضرات کی ہر چیز پر اس کے اثرات پڑتے ہیں۔ سبزی سے لے کر دال چاول، آٹا، گوشت، گھی، تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا جاتا ہے جس کی پوری ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ہماری حکومت مضبوط ہے لیکن اپوزیشن مہنگائی کے حوالے سے حکومت کے لیے سخت مشکلات پیدا کرتی ہے، جس کا اندازہ ہمارے حکمران طبقے کو بالکل نہیں۔
عوام مہنگائی سے سخت نالاں ہیں اور اس کا ذمے دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے حکومتوں کی بدنامی میں سب سے بڑا ہاتھ مہنگائی کا ہے اور بجا طور پر عوام حکومت سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرائس کنٹرول کمیشن کا کام مہنگائی کو روکنا ہے یا بھاری رشوت لے کر تاجروں کو من مانی کرنے کی اجازت دینا ہے۔
دنیا کے بعض ملکوں میں عوام مہنگائی سے بیزار ہوکر لوٹ مارکرتے ہیں تو تاجروں کو عقل آجاتی ہے اشیائے صرف کی قیمتیں اعتدال پر آجاتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ عوام سختی پر اتر آئیں تاجروں کی ذمے داری ہے کہ وہ بلاجواز مہنگائی سے باز آجائیں۔ حیرت ہے کہ ملک بھر میں کورونا کی وجہ عوام سخت پریشان ہیں ایسی مصیبت کے وقت تاجروں کی طرف سے مہنگائی کا عذاب ہرگز ناقابل قبول ہے۔ پچھلے دنوں انڈے 110 روپے درجن فروخت ہو رہے تھے پھر یہ ہوا کہ 100روپے درجن سے بلاجواز 130 روپے درجن ہوگئے۔
کچھ دن پہلے مرغی 210 روپے کلو فروخت ہو رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے 400 روپے کلو پر آگئی جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ مہنگائی سے شروع ہونے والا احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں تحریک کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور تحریکیں منظم ہوں تو حکومتوں کا باجا بجا دیتی ہیں۔ اس زندہ حقیقت کے پیش نظر حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ مہنگائی سر اٹھاتے ہی اس کا سرکچل دیں ورنہ یہ مہنگائی انتظامیہ کا سرکچل دیتی ہے۔
ایلیٹ پر مشتمل اپوزیشن ہاتھوں میں بینرز لیے کھڑی ہے اگر حکومت کھلی آنکھوں سے ان چیلنجنگ مسائل کو پس پشت ڈال کر حکومت کے مزے لیتی رہی تو اچانک مہنگائی کی چھت سر پر آ گرے گی اور حکومت پلک جھپکتی رہ جائے گی۔ اس سے پہلے کہ یہ صورتحال پیش آئے حکومت کو آنکھیں کھول لینی چاہئیں ورنہ چڑیاں چگ گئیں کھیت ہوجائے گا۔
عمران خان نے جس حکومت کو اقتدار سے ہٹایا ہے وہ مہا بلیوں کی حکومت ہے اس کے ہاتھ پاؤں اتنے لمبے ہیں کہ حکمرانوں کے گریبانوں تک جاسکتے ہیں یہ تو وزیراعظم کی خوش قسمتی ہے کہ کرپشن کا ڈنکا اس زور سے بجایا گیا کہ اپوزیشن کو کان میں انگلیاں دینی پڑگئیں اور اشرافیہ عوام میں اتنی زیادہ پس منظر میں چلی گئی کہ عوام حکومت کی کسی کال پر دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔
عوام کی اس سائیکی کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کرپشن سے پاک ہے۔ اپوزیشن کی سر توڑکوشش کے باوجود عمران خان پرکرپشن کا کوئی الزام نہ لگا سکی۔ عمران حکومت کی نیک نامی کا یہ اثر ہے کہ عوام ابھی تک حکومت کے خلاف متحرک نہیں ہوئے ورنہ کئی مواقعے ایسے آئے کہ اپوزیشن حکومت کا باجا بجا سکتی تھی۔
اپوزیشن کو کوئی ایسا ایشو نہیں مل رہا جو اسے عوام میں توجہ دلا سکے اس پر کورونا کے وار نے عوام کو اسی قدر سراسیما کرکے رکھ دیا ہے کہ جو عوام دن میں بیس مرتبہ ہاتھ دھو رہے ہیں وہ بھلا سڑکوں کی دھول میں مظاہرے اور احتجاج کرسکیں گے۔ جان ہے تو جہان ہے اپوزیشن کو بھی اپنی جان پیاری ہے کم ازکم کورونا کی موجودگی میں اپوزیشن کوئی تحریک چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی اورکورونا لمبا کھنچتا نظر آرہا ہے۔ جب عوام دن میں بیس بار صابن سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو وہ کیا خاک احتجاج کریں گے کیا خاک دھرنے دیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ کورونا کے خاتمے تک موجودہ حکومت اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہوگی۔
ہماری اپوزیشن عموماً ارب پتیوں پر مشتمل ہے ذرا سے نزلہ بخار پر لندن اور امریکا کے اسپتالوں کا رخ کرتی ہے، بڑے ہوٹلوں میں ہمارے مریض معہ خاندان کے ناشتے کرتے ہیں، لنچ اور ڈنر کا اہتمام کرتے اور تازہ خبروں میں یہ ساری تفصیلات بتا دی جاتی ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال لازمی اٹھے گا کہ یہ کیسے بیمار ہیں جو بیماری میں سرخ و سفید ہو رہے ہیں اور وقت کا زیادہ حصہ انھی سرگرمیوں میں گزرجاتا ہے تو پھر مریضوں کا علاج کب اور کہاں ہوتا ہے ان سوالوں کے آسان جواب ملنے کے بعد اشرافیہ کی طرف سے عوام کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہ ایلیٹ کی بیماریوں اور علاج سے پوری طرح واقف ہوگئے ہیں۔
یہی وہ وجوہات ہیں جو عوام کو اپوزیشن سے دور لے جا رہی ہیں۔ طبقاتی معاشروں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کورونا سے متاثر ہے اور آئسولیشن یا قرنطینہ میں آرام کرنے کے بجائے چاروں طرف پھیلے ہوئے کورونا وائرس کے درمیان مزدوری کر رہے ہیں اب طبقاتی عیاشیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور کورونا سے متاثر ایلیٹ کا بھی انھی اسپتالوں میں علاج ہونا چاہیے جن میں مزدوروں کسانوں اور غریب طبقات کا علاج ہوتا ہے۔