کائنات کو وجود میں آئے اربوں سال ہو گئے، اس دوران سورج کا ایک ٹکڑا سورج سے الگ ہو کر یا سورج سے نکلنے والے آگ کے شعلوں سے ایک حصہ فضا میں کروڑوں سال تک گردش کرنے کے بعد ٹھنڈا ہو کر زمین بن گیا۔
اس زمین کی تاریخ بھی کروڑوں سال پر مشتمل ہے لیکن ان کروڑوں سالوں کے دوران کرہ ارض کس قسم کے حالات سے گزرا، اس کے بارے میں ماہرین ارض بھی خاموش ہیں۔ کرہ ارض کی معلوم تاریخ صرف دس پندرہ ہزار سالوں پر مشتمل ہے، ان دس پندرہ ہزار برسوں کے دوران کتنی تہذیبیں آئیں اور مٹ گئیں اس کے حوالے سے بھی قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہاں ایک بات البتہ وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس دوران طبقاتی نظام ضرور رہا۔ ہم یہاں پتھر کے دور وغیرہ کا ذکر نہیں کر رہے ہیں کہ یہ دور بھی تاریخ کے تاریک دور ہی میں شمار ہوتا ہے۔
ہاں غلامی کا ایک طویل دور معلوم تاریخ کا حصہ ہے، اس دور میں انسان خریدے اور بیچے جاتے تھے، اس خرید و فروخت کے لیے باضابطہ منڈیاں لگتی تھیں اور ان منڈیوں میں انسان جنس کی طرح خریدے اور بیچے جاتے تھے۔ مغربی ملکوں میں یہ کاروبار بہت منظم طریقوں سے چلتا تھا۔ افریقہ سے کالے باشندوں کو پانی کے جہازوں میں بھر کر لایا جاتا تھا اور انسانوں کی منڈیوں میں جنس کی طرح بیچا جاتا تھا۔
انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے دنیا ہی کو کائنات سمجھتا ہے جب کہ دنیا یعنی ہمارا کرہ ارض ہمارے نظام شمسی کا ایک چھوٹا سا سیارہ ہے دنیا میں لاکھوں نظام شمسی ہیں اور ان سے جڑے کروڑوں سیارے ہیں۔ کیا کائنات کے کسی نظام شمسی کے کسی سیارے میں جاندار موجود ہے اگر جاندار موجود ہے تو وہ کس طرح کی ہیت کا ہو گا، کیا وہ انسان جیسے حلیے کا حامل ہو گا، کیا وہ انسان کی طرح بولتا ہو گا، کیا اس میں انسان جیسی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو گی، کیا وہ انسان کی طرح کھاتا پیتا ہو گا؟ یہ اور اس قسم کے بے شمار سوالات انسان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔
ہاں! یہ بات درست ہے کہ ہر دور میں طاقتور انسان نے کمزورپر حکومت کی ہم اکیسویں صدی میں ہیں جو انسانی تاریخ کی انتہائی ترقی یافتہ صدی کہلاتی ہے اس ترقی یافتہ صدی میں بھی طاقت کا بول بالا ہے طاقتور کمزور پر بھاری ہے۔ دنیا میں 7 ارب انسان رہتے ہیں جن میں 90 فیصد غریب اور مفلوک الحال ہیں اس کے برخلاف دو فیصد سے کم اشرافیہ ہے جو دولت کی طاقت کے بل پر 90 فیصد پر حکومت کر رہے ہیں انھیں ہم اجرتی غلام کہہ سکتے ہیں۔ ان کا کام اجرت یا تنخواہ کے بدلے دولت مندوں کی دولت میں اضافے کی ڈیوٹی پوری کرنا پڑتا ہے یہ جدید دور کی قدیم غلامی ہے۔
مغربی ملکوں کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال بھوک اور بیماری سے دو لاکھ سے زیادہ انسان دودھ اور مناسب غذا نہ ملنے سے، بچے، مناسب غذا اور علاج کی سہولت نصیب نہ ہونے کی وجہ سے، خواتین اور علاج کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے لاکھوں حاملہ عورتیں جان سے چلی جاتی ہیں، یہ تاریخ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور کی صورت حال ہے۔ یہ اس نظام کا کیا دھرا ہے جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں اس نظام ظلم نے دنیا کے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ایک غریب دوسرے امیر۔
اس نظام ظلم کے آقاؤں نے عوام کی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں مختلف حوالوں سے تقسیم کر دیا ہے مذہب، ذات پات، زبان، قومیت وغیرہ کے نام پر نہ صرف انسانوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے بلکہ انھیں اس طرح متحارب کر دیا گیا ہے کہ اس حوالے سے لاکھوں انسان ایک دوسرے کے قاتل بن گئے ہیں صرف مذہب کے نام پر مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آدم کی اولاد کو پچاسوں خانوں میں بانٹ کر ان کی اجتماعی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیا گیا ہے، آج اس تقسیم کی وجہ غریب، غریب سے نفرت کر رہا ہے، ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
انسانوں کے وہ مسائل جن کی وجہ انسان حیوان بن کر رہ گیا ہے، ان پر بار بار لکھنے کی ضرورت ہے تا کہ غریب اور مظلوم عوام کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا احساس ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظام کوکیا نام دیں جس میں ایک شخص بزنس وغیرہ کے نام پر اربوں روپوں پر قبضہ جمائے بیٹھ جاتا ہے جب کہ کروڑوں عوام غربت اور لاعلاجی کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ اس انسان کش نظام کو دنیا کا ناگزیر اور " انسانوں کی غلامی" کا نظام کہا جا رہا ہے۔ اس طرح کے ظلم اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت فطری ہے لیکن جیسا کہ ہم نے نشاندہی کی ہے اس مزاحمت کو روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑا حربہ انسانوں کی منتقمانہ تقسیم ہے عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر کے انھیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا ہے۔ خدا اور مذہب انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اس ضرورت کو نفرت اور مزاحمت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ سارے حربے صرف اور صرف دو فیصد اشرافیہ کے دنیا کی 60 فیصد سے زیادہ دولت پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوششوں کا حصہ ہیں اس کو تحفظ دینے کے لیے سخت قوانین کی ایک چین بنا دی گئی۔ کیا انسان کو اس ظلم سے نجات ملنی چاہیے؟