تاریخ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا خلاصہ ہے اور اسے ہم بادشاہوں، شہنشاہوں، راجوں، مہاراجوں کی زندگی کا خلاصہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسے ہم دنیا کی بد قسمتی کہیں یا تاریخ دانوں کی بد قسمتی کہ کسی تاریخ کو " عوامی" نہیں بنایا گیا اگر راجوں، مہاراجوں کی تاریخ ہے تو وہ ظلم اور عیاشیوں سے بھری ہوئی ہوگی، اگر تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے تو بادشاہوں اور راجوں کے ہاتھی گھوڑے ان جنگوں کے کردار ہوں گے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے، شاہوں راجوں کے بجائے، شاہوں اور راجوں کے ہاتھی گھوڑوں کا ذکر ہم نے کیوں کیا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ شاہ، شہنشاہ، راجہ، مہاراجہ جنگیں لڑاتے رہے ہیں لڑتے نہیں رہے۔ ویسے تو جنگیں ماضی میں بھی سپاہی ہی لڑتے تھے حال میں بھی سپاہی ہی لڑ رہے ہیں لیکن اس کا سہرا شاہوں اور ان کے سپہ سالاروں کے کھاتے میں درج ہوتا ہے۔
چھوٹے اور بڑے کا امتیاز ماضی میں بھی رہا ہے اور حال میں ہے۔ عوام تیسرے درجے کی زندگی گزارتے ہیں۔ آج طبقات کی بات میں نے معاشرے کے طبقات کے حوالے سے کی ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ اعلیٰ اور ادنیٰ میں تقسیم ہے۔ بیچ میں ایک طبقے مڈل کلاس کو لا کھڑا کیا جاتا ہے، ایک دور تھا جب مڈل کلاس مثبت رول ادا کرتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ مڈل کلاس ایجنٹ کا رول ادا کرنے لگا۔ ذرا آپ کابیناؤں پر نظر ڈالیں آپ کی سمجھ میں مڈل کلاس کی بات بڑی آسانی سے آجائے گی۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہماری زندگی کا بڑا حصہ تقریباً پچاس سال طبقاتی تضادات کے مطالعے مشاہدے میں گزرے ہیں، جیساکہ ہم نے نشان دہی کر دی ہے۔ ایک زمانے میں جینوئن مڈل کلاس ہوتی تھی اور طبقاتی لڑائیوں میں بھرپور رول ادا کرتی تھی اگر آج کے عمومی مڈل کلاس کی تعریف کرنا چاہیں تو صرف ایک لفظ ایجنٹ میں کی جاسکتی ہے۔ ہماری سیاست میں مڈل کلاس اتنی ایکٹیو ہے کہ مڈل کلاس کے بغیر سیاسی بادشاہوں کا گزر ہی ممکن نہیں۔
جب ہم نچلے طبقات یعنی مزدور کسان عام غریب طبقے کی بات کرتے ہیں جن کی تعداد پاکستان میں 22کروڑ ہے تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان طبقات کا شمار انسانوں میں ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو انھیں انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق کیوں نہیں دیا گیا؟ ملک اور معاشرے میں جو پیداوار ہوتی ہے خواہ وہ زرعی ہو یا صنعتی یہ سب مزدور اورکسان کی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اگر بات یہی ہے تو پھر مزدوروں اورکسانوں کو باعزت باوقار انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ روٹی اور کپڑا اور مکان کے نعرے پر انھیں کیوں ٹرخایا جاتا ہے جن لوگوں کی محنت سے معاشرے میں رونق ہے انھیں اس قدر بے رونق کیوں بنا کر رکھ دیا گیا ہے؟
کیا کسی شریف آدمی نے ان 22 کروڑ انسانوں کے شب و روزکا سروے کیا ہے۔ کیا کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس کا موازنہ لانڈھی، کورنگی، گل بائی اور شیرشاہ سے کیا ہے۔ اگر کیا ہے (ممکن نہیں ) تو ان دو علاقوں کے درمیان فرق کو محسوس کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو اس کچرا کلاس کو انسانی سطح پر لانے کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے؟
تم سرکاری کاموں کے نام پر دنیا بھر کے اعلیٰ ہوٹلوں میں گل چھرے اڑاتے پھرتے ہو، تمہارے ملک کے غریب، مزدور، کسان قابل زبوں حالی کا شکار ہیں، تمہاری ظالم کلاس کے ایک ادنیٰ وڈیرے کا حال یہ ہے کہ اگر کسی غریب کی بکری اس کے کھیت میں چلی جاتی ہے تو وڈیرہ بکری کو نہیں چھیڑتا بلکہ بکری کے غریب مالک کو قتل کرا دیتا ہے۔
یہ تمہارے ادنیٰ اکابرین کا حال ہے اب اس دنیا کو بدلنا چاہیے اور اسے انسانوں کے رہنے کی دنیا بنانا چاہیے۔ تم عام غریب آدمی کو بے وقوف بنانے کے لیے اربوں روپوں کا اسلحہ خریدتے ہو اور اپنے اسلحہ گوداموں کو بھر دیتے ہو۔ جاؤ ذرا واشنگٹن، پیرس، ماسکو کے ترقی یافتہ شہروں سے نکل کر پسماندہ ملکوں کے گندے شہروں میں جاؤ، تمہاری نفاست تمہاری نزاکت کا پتا چلے گا اور شاید تمہیں شرم آئے کہ دنیا خصوصاً پسماندہ دنیا میں جو انسان رہتے ہیں کیا تم انھیں انسان کہہ سکتے ہو؟
دنیا میں یہ جو سکوت نظر آرہا ہے یہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے، ڈرو اس وقت سے جب گندے پسماندہ انسان اپنے کچن کی گندی چھریاں چاقو لے کر نکلیں گے اور تمہارا پیچھا کریں گے۔ تمہیں ان اذیتوں ان تکلیفوں کا جب اندازہ ہوگا وقت شاید گزرگیا ہوگا، تیر کمان سے نکل گیا ہوگا۔