عوام مہنگائی اورکرپشن کی شکایت کرتے ہیں، طبقاتی معاشرے اور طبقاتی برتری اور کم تری کی باتیں کرتے ہیں۔ عوام آخر میں قسمت کی بات کرکے کسی حد تک مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کیا عوام کے یہ شکوے قابل توجہ ہیں؟
ان تمام شکایات میں عوام سو فیصد حق بجانب ہیں لیکن کیا یہ رویہ درست ہے کیا صرف شکایتوں، شکوؤں سے اس کی محرومیاں ختم ہو جائیں گی؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، ہاں اگر آپ اپنی شکایتوں کے ازالے اپنے مسائل کے حل کے لیے متحد ہوکر آگے بڑھتے ہیں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آپ اپنی منزل کی طرف جا رہے ہیں، آپ اپنے مسائل کے حل کی طرف جا رہے ہیں۔
آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ ایلیٹ یعنی دولت مند کلاس کی پریشانی کا باعث بنتے ہیں اور آپ کا یہ اتحاد آپ کا یہ شعور "شرفا" کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی لیے آپ کو مختلف خانوں میں بانٹ کر رکھا گیا ہے کہ کہیں عوام کے طوفانوں کا منہ پھیرنے والی عوامی طاقت ایک مرکز یعنی طبقاتی مظالم کے خاتمے کی طرف نہ آجائے۔ اس حوالے سے میں ایک اصل بات کرنا چاہتا ہوں۔
آپ کسی بھی فرقے سے ہیں، آپ سندھی ہیں، آپ مہاجر ہیں، آپ پنجابی ہیں، آپ پٹھان ہیں، آپ بلوچ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آپ اگر سندھ میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ یقینا سندھی ہی کہلائیں گے، اگر آپ پنجاب میں پیدا ہوئے ہیں تو یقینا آپ پنجابی کہلائیں گے، اگر آپ بلوچستان میں پیدا ہوئے ہیں تو یقینا آپ بلوچ ہی کہلائیں گے، اگر آپ پختونخوا میں پیدا ہوئے ہیں تو یقینا آپ پختون یا پٹھان ہی کہلائیں گے۔ آپ مہاجر ہیں تو آپ یقینا مہاجر ہی کہلائیں گے۔ مگر 72 سال گزر گئے اب آپ مہاجر نہیں رہے اب آپ کو سندھی ہونا چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ ایلیٹ کی سازش کا شکار ہو کر آپ مہاجروں سے دور نہ ہوں۔
سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ ایلیٹ کا طبقاتی مفاد اسی میں ہے کہ وہ متحد اور ایک رہیں اور عوام کو تقسیم کرکے رکھیں۔ چونکہ مہاجر میں اب تک ایلیٹ قسم کا کوئی طبقہ پیدا نہیں ہوا اور چھوٹے موٹے سیاست کار ہی مہاجروں کی نمایندگی کر رہے ہیں اس لیے یہ لوگ قیادت کے حوالے سے انتشار کا شکار ہیں۔ ہم نے مختصر طور پر عوام کی بڑی تقسیم کا ذکر کیا۔
پاکستان کی عوام دشمن بددیانت اور ریاکار ایلیٹ عوام کی مذکورہ تقسیم کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے 72سال سے استعمال کرتی آ رہی ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں اینٹی ایلیٹ طاقتیں خود انتشار اور گروہ بندی کے علاوہ احمقانہ اور تصوراتی انقلابیت سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں اور اب تک انقلابیت کو محض کامریڈیت تک محدود کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اس بار ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا بندہ اور اس کی پارٹی برسر اقتدار آئی ہے، ہماری ایلیٹ ورکنگ کلاس کو تو انسان ہی نہیں سمجھتی۔ بعض وقت وہ اقتدار کے لیے مڈل کلاس سے سمجھوتے کرتی رہتی ہے لیکن ورکنگ کلاس یعنی عام غریب آدمی، مزدور، کسان اور ہاری وغیرہ کو وہ انسان ہی نہیں سمجھتی۔ عوام مختلف ایلیٹی پارٹیوں کی سیاست کا شکار ہو رہے ہیں۔
عام انتخابات سے قبل ایلیٹ کی بدبودار گلیوں میں محض ووٹ کی بھیک مانگنے جاتے ہیں اب تو انھیں ایسے سہولت کار مل گئے ہیں جو ایلیٹ کی نمایندگی کرتے ہوئے ایلیٹ کو عوام کی گندی بستیوں میں جانے کی زحمت سے بھی بچا لیتے ہیں۔
اب ذرا کرنٹ سیاست کی طرف آئیں اس وقت ملک پر ایک مڈل کلاس پارٹی کی حکومت ہے جب سے یہ مڈل کلاس پارٹی اقتدار میں آئی ہے ایلیٹ انگاروں پر لوٹ رہی ہے اب تک حکومت کو نکال باہر پھینک دیا جاتا لیکن سامنے ایک پہاڑ کھڑا ہے اگر ایلیٹ کا بس چلتا تو وہ پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیتی لیکن ہائے رے مجبوریاں وقت کی۔ بے چاری ایلیٹ نے حکومت کو نکال باہر کرنے کا ہر حربہ آزما لیا لیکن سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اب ایلیٹ نئی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے۔
سازشیں ہو رہی ہیں، چالیں چلی جا رہی ہیں مگر پہاڑ سے ٹکرانے کی ہمت نہیں۔ عمران خان کے حوالے سے ہم نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ عمران خان نے کوئی تیر نہیں مارا، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس پر ہماری "ایماندار" اپوزیشن کی بھی کرپشن کا کوئی الزام لگانے کی ہمت نہیں ہوئی جب کہ ایلیٹ کی پوری تاریخ اربوں روپوں کی لوٹ مار سے بھری ہوئی ہے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو ٹی وی پر کئی نئے افراد کے خلاف مقدمات بننے کی خبریں نشر ہو رہی ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ کرپٹ لوگ پکڑے جا رہے ہیں، لیکن یاد رہے کہ حکومت کو ان "عمائدین" پر کرپشن ثابت کرنا پڑے گی ورنہ اپوزیشن رہی ایک طرف ہم اپنے قلم کو الزامات ثابت نہ کرنے والوں کے خلاف استعمال کریں گے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز عوام کی مختلف حوالوں سے تقسیم اور اس کے نقصانات سے کیا تھا غریب عوام کو اب اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ اپنے طبقے میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کیے بغیر عوام اس کرپٹ ایلیٹ سے نجات حاصل نہیں کرسکتے جو عوام کا خون چوس رہی ہے۔ جو لوگ نیک نیتی سے عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں انھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ عوام اب سچ اور جھوٹ میں فرق کو پہچان رہے ہیں سمجھ رہے ہیں اب عوام دوستوں کا فرض ہے کہ وہ سچ کا ساتھ دیں۔