Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jadu Ka Khel

Jadu Ka Khel

ایک عرصے سے نیب کے اختیار میں کمی بیشی کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ نیب کے حامی نیب کے اختیارات میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مخالفین نیب کے اختیارات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

عقل سے پیدل یا عقل سے عاری ملکوں کا یہ وتیرہ رہتا ہے کہ وہ کسی مسئلے کا عقلی اور شعوری پہلو دیکھ کر کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے اس کے عموماً منفی پہلو اور ظاہری حالات دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور قوم کے اجتماعی مفاد کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔

عام احتسابی جماعتوں کی ناکامی کے بعد ہمارے احتسابی اکابرین نے نیب کا انتخاب کیا کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو درست معنوں میں احتساب کی ضرورت پورا کرے گا۔ اس دوران کئی فیصلے ہوئے۔ نیب والوں کا کہنا ہے کہ جس قدر ممکن ہے انصاف کیا گیا۔

جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ وہ جمہوریت اور غیر جمہوریت کو ساتھ لے کر چلتی ہے جو نیم دلانہ فیصلے آج تک ہوئے ہیں، اسے میرٹ پر پرکھنا اس کے لیے مشکل ہے کہ اس حوالے سے میرٹ کا حقیقی فیصلہ نہ اب تک ہوا نہ اب بھی ہونے کی توقع ہے کیونکہ میرٹ کا معیار یہ طے کیا گیا ہے کہ جو ہمارے حساب پر پورا اترے وہ میرٹ ہے جو ہمارے معیار پر پورا نہ اترے وہ میرٹ نہیں ہے۔

اس انصاف کا نتیجہ ہے کہ حکومتی میرٹ کو نظرانداز کیا جاتا ہے حزب اختلاف میرٹ کو پسندکیا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے، اس انصاف سے ہوسکتا ہے خواص مطمئن ہوں عوام مطمئن نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے کہ انصاف کی گاڑی نیب پر رکی ہوتی ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان کا احتسابی کلچر ابھی تک ہاں، ناں کے بیچ میں ہے کیا سمجھیں کیا نہ سمجھیں اس کا فیصلہ ہنوز انصاف طلب ہے۔ اصل میں اشرافیہ شاہی اور نوکرشاہی دونوں اپنی منصفی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دونوں ہی غلط دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ مکھن والے بندرکی طرح حضور والا یعنی اشرافیہ بیچ میں ہے ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اشرافیہ ہے اب اشرافیہ بھی پٹ گئی ہے۔ انصاف نہ حزب اختلاف کے ہاں ملتا ہے نہ حزب اقتدار کے ہاں۔ جو کچھ ملتا ہے وہ انصاف نہیں وہ انصاف کی نقل ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ابھی تک اسی سے کام چلایا جا رہا ہے۔

یہ عارضی سلسلہ اتنا لمبا ہوگیا ہے کہ اس دوران کتنی نسلیں گزر گئی ہیں، بات اور انصاف کی نہیں ہے چلتی کا نام گاڑی کی ہے اور قانون اور انصاف کے ادارے اس کلچرکی آواز میں بے آسرا پڑے ہوتے ہیں بلاشبہ نیب نے کچھ نہ کچھ کرنے سے بہتر ہے کچھ کیا جائے اور اب ایک عرصے سے اسی پرگزارا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ نئی عمران حکومت نے اور کچھ کیا نہ کیا اتنا توکیا ہے کہ کرپشن کو حکومت میں مجموعی طور پر گھسنے نہ دیا اور یہ بات حزب اختلاف بھی مانتی ہے۔ پہلے یہ تھا کہ جس طرف آنکھ اٹھاؤں تیری تصویراں والا معاملہ تھا اب یہ کام بڑا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ بیچ میں وہ یہ بھرمار تھی اور متعلقین پریشان تھے اب کچھ اس میں استحکام نظر آ رہا ہے۔

اصل مسئلہ ان اکابرین کا ہے جو بیچ میں کھڑے ہوکر جس کا رخ جس طرف چاہیں کرسکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کرپشن کی جڑیں مضبوط کرتے ہیں۔ ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ اربوں روپوں کی کرپشن کی داستانیں بیچ میں آتی رہیں ثبوت گواہ بھی غالباً پیش کیے جاتے رہے لیکن ملزمان کہاں ہیں وہ اربوں روپے کہاں ہیں جو زیر بحث ہیں۔ ان بھاری رقوم کے غائب ہونے کی وجہ کیا ہے۔ قانون اور انصاف بھی فعال ہے ملزمان اور برآمد شدہ مال کہاں ہے۔ اس مال کے برآمد ہونے میں کوئی مشکل نہیں لیکن سچ میں ہرکاروں کی جو فوج کھڑی رہتی ہے وہ مال بھی ادھر ادھر کردیتی ہے اور مال بردار کو بھی ادھر ادھر کردیتی ہے۔

ہزار دو ہزار کا مال ادھر ادھر کرنے والے اس قدر ایکسپرٹ ہوتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں کا مال پلک جھپکنے میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نامی مال کس کوکہتے ہیں یہ کہاں رہتا ہے کدھر جاتا ہے یہ سب کیسا کھیل ہے اگر احتسابی ادارہ اس کھیل سے واقف ہے تو کھیل اور کھلاڑی سب دسترس میں ہوتے ہیں اگر کھیل اور کھلاڑی راستے سے ہی چھو منتر ہوجاتے ہیں تو پھر نہ کھیل رہتا ہے نہ کھلاڑی۔ یہ سارے منتر اشرافیہ کے ہاں اور صرف پاکستان میں آزمائے جا رہے ہیں، کھلے عام لوگوں کی نظروں کے سامنے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سارا کام ہاتھ پیر ہلائے بغیر ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا چھومنتر ہے کہ متعلقہ آدمی اپنی جگہ پر رہتا ہے اور سارے چھوٹے بڑے کام خودکار نظام کے تحت ہوتے ہیں۔

ایسی بھی بات نہیں کہ سارے کام فرشتے کرتے ہوں البتہ یہ کسی حد تک نظر بندی کا کھیل ضرور ہے آدمی کے سامنے آدمی غائب ہوجاتا ہے اس کو احساس نہیں ہوتا۔ حالیہ دو برسوں کے اندر کتنے ارب روپے ادھر سے ادھر ہوئے اس کا درست پتا چلایا جائے تو آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں۔ ویسے تو پاکستانی اشرافیہ اپنے فن میں یکتا اور ماہر ہیں لیکن اس کی مہارت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کو کوئی ٹاسک دیا جائے۔

پاکستانی خزانے سے کروڑوں نہیں اربوں روپے اڑن چھو ہوگئے ہیں اور اس طرح ہوئے ہیں برابر والے کو اس کی خبر نہیں یہ جادوکا کھیل ہے بندہ ایک جگہ تشریف رکھتا ہے لیکن اس کی تشریف کی جگہ تبدیل ہوجاتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام بھوک، افلاس، غربت، بیماری میں جکڑے ہوئے ہیں، انھیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے بلاشبہ اشرافیہ کے حربوں سے اربوں روپوں کی الٹ پھیر ہوتی ہے۔ عوام یہ کھیل دیکھتے آ رہے ہیں۔ عوام نے اپنی محنت سے اب یہ کھیل سیکھا ہے کہ بندہ سامنے سے غائب ہوجاتا ہے کتنی تلاش کرو ملتا نہیں۔