Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jamhoori Mustaqbil

Jamhoori Mustaqbil

ملکی سیاست میں الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے، جلسے اور جلوس بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ میدان سیاست میں صرف دو پارٹیاں موجود ہیں۔ ایک گیارہ جماعتی اتحاد دوسری تحریک انصاف۔ باقی چھوٹی پارٹیاں ایسی ہیں جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

حکمران جماعت کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے پاس ایسی ٹیم موجود نہیں جو بھرپور طریقے سے پارٹی پروگرام کے ساتھ اپوزیشن کو جواب دے سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔

ماضی کے دس سالوں میں دو جماعتوں کی لیڈر شپ پر کرپشن کے جو الزامات لگائے گئے ہیں اس کا جواب گیارہ جماعتی اتحاد کے پاس سوائے آئیں، بائیں، شائیں کے کچھ نہیں چونکہ یہ بھاری رقم کسی وڈیرے یا صنعتکار کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے غریب محنت کش عوام کی ہے لہٰذا اسے آسانی سے ہضم کرنے نہیں دیا جائے گا، دوسرا مسئلہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے تعجب ہے کہ موجودہ حکومت ان دونوں مسائل کو ٹارگٹ نہیں بنا رہی ہے، جو حکومت کی بڑی مدد کرسکتے تھے۔

ویسے بھی جس زور و شور سے اپوزیشن احتجاجی مہم چلا رہی ہے، اس کے جواب میں حکومت کی جوابی مہم کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دوسرا برننگ ایشو سینیٹ الیکشن لڑنے والوں کی خدمت میں پیش کی جانے والی کروڑوں کی رقوم کی کہانیاں ہیں۔ اس ٹچی مسئلے پر حکومت 11 جماعتی اتحاد کو لاجواب کرسکتی ہے۔ ایسے آگ زدہ مسائل ووٹروں کے دلوں میں آگ لگا دیتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومتی وزراء اور ترجمانوں کو ان کا سرے سے احساس ہی نہیں۔ تحریک انصاف میں پڑھے لکھے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اہم ترین مسائل کے حوالے سے عوام کوگائیڈ کریں، کیونکہ بعض مسائل پرانے ہونے کے باوجود نئے ہوتے ہیں۔

الیکشن لڑنے والی جماعتیں سینیٹ میں کامیابی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ سینیٹ یعنی ایوان بالا قومی اسمبلی کی طرح خصوصی اہمیت کا حامل تو نہیں ہے لیکن اس ایوان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے قائد ہیں لیکن اب وہ جلسے جلوسوں میں کم ہی نظر آتے ہیں اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مولانا کو غالباً وہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے جو کچھ عرصے پہلے تک انھیں حاصل تھی یا ہو سکتا ہے اندر کی کوئی وجہ ہو۔ پتا نہیں کیوں خیبر پختونخوا کی لیڈرشپ اتنی متحرک نظر نہیں آتی، جتنی نظر آنی چاہیے۔

ویسے بھی اس اتحاد میں شامل بعض جماعتیں تو بھرتی کی ہیں، ان کے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پر کرپشن کا جو الزام لگایا گیا، اس میں کتنی صداقت ہے۔ بہرحال ان کے پاس پیسہ کہاں سے اور کیسے آگیا؟ اس کی حقیقت ضروری سامنے آنی چاہیے۔ اگر الزامات ثابت ہوگئے تو پھر ان کی "خواجگی" متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی اور عوام کی نظروں میں ان کا وہ رعب و دبدبہ نہیں رہے گا جو اب تک انھیں حاصل تھا۔ ان کے بعض ساتھیوں پر بھی اسی قسم کے الزامات ہیں، ان میں سے کچھ جیل میں ہیں، کچھ مفرور ہیں، کچھ ادھر ادھر ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا گنہگاروں کو ان کے گناہوں کے مطابق سزا ملے گی؟

ہم سمیت کئی لکھاریوں نے موجودہ حکومت کی تائید اس لیے کی کہ ہمارا خیال ہے کہ تحریک انصاف مڈل کلاس کی پارٹی ہے اور اس کا سربراہ بھی مڈل کلاسر ہی ہے جو کرپشن کے الزامات سے پاک ہے۔ عمران خان کے بدترین مخالف بھی، آج تک ان پرکرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا سکے۔ آج کے کرپٹ ملکوں، کرپٹ معاشروں میں کرپشن سے دولت کمانے سے پرہیز کرنا ایک عجوبے سے کم نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ماضی کی سیاست اور سیاستدانوں کے پس منظر میں عمران خان کی شخصیت ایک عجوبہ نہیں لگتی؟ 70 سال سے ملک میں لوٹ مار کا جو کلچر عام ہوا ہے، اس کے پس منظر میں حکومت ایک عجوبہ ہی لگتی ہے۔ اس عجوبے کا کریڈٹ بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کو جاتا ہے۔

اگر اس الیکشن میں کروڑوں روپوں کی کرپشن کی آوازیں نہ سنائی دیتیں تو امکان تھا کہ حکومت یہ الیکشن جیت جاتی لیکن جہاں رشوت کا بازار کروڑوں تک پہنچے وہاں ایمانداری دور کھڑے ہاتھ ملتے ہوئے دیکھ تو سکتی ہے مگرکچھ کر نہیں سکتی اور لین دین اس قدر محفوظ طریقوں سے ہو کہ ذمے دار ادارے بھی دھوکہ کھا جائیں تو نہ صرف ایوان بالا کے الیکشن پانی میں چلے جاتے ہیں بلکہ اس ملک کے جمہوری مستقبل کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کرپشن اور کرپٹ اشرافیہ باقی ہے۔