Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jamhuriat Haari Aur Kisan

Jamhuriat Haari Aur Kisan

کالم نگار جب اخبارکھولتا ہے تواس کے سامنے بے شمار موضوع بکھرے پڑے ہوتے ہیں اور ان میں ورائٹی بھی ہوتی ہے لیکن اگر کالم نگار کے سر میں نظریات کا سودا ہوتا ہے اور طبقاتی نظام کے حوالے سے کالم لکھتا ہے تو اسے مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ موضوع کچھ ہی کیوں نہ ہو طبقاتی تضادات کو اجاگر کرنا اور قارئین میں طبقاتی تضادات کی "رنگینیوں" کو سامنے لانا ایک اسپاٹ کام ہوتا ہے لیکن ہم جس طبقاتی سماج میں زندہ ہیں اگر اہل قلم کو اس کی ستم رانیوں کا احساس ہو تو وہ طبقاتی تضادات کے موضوع کو بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔

ہمارے معاشرے اور ملک میں کسان سب سے زیادہ محنت طلب کام کرتا ہے گرمی، سردی، بارش اس کے لیے سب ایک جیسے ہوتے ہیں، چلچلاتی دھوپ ہو یا کڑاکے کی سردی یا موسلا دھار بارش اسے محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ اس کی محنت ہی پر اس کے گھر، اس کے بچوں کا دار و مدار ہوتا ہے۔

اس قدر سنگین حالات میں زندہ رہنے والے ہاریوں اور کسانوں کی زندگی دال روٹی، پیاز روٹی کے محور پر گھومتی ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہزاروں صفحات کالے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دیہی زندگی کا 60 فیصد حصہ کسانوں اور ہاریوں پر مشتمل ہے، اس کروڑوں نفوس کی آبادی پر چند وڈیرے جاگیردار بادشاہوں کی طرح راج کر رہے ہیں۔

آخر اس نا انصافی کا سبب کیا ہے؟ تحریک پاکستان میں قربانیاں تو غریب عوام نے دیں لیکن راج پاٹ پر قبضہ وڈیروں اور جاگیرداروں نے کیا اور یہ قبضہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ اس قبضے میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ صنعت کار اور اعلیٰ سطح کی نوکر شاہی بھی شامل ہو گئی ہے اور یہ ایکٹ 72 سال سے دیہی زرعی معیشت سے جڑے کروڑوں ہاریوں کسانوں کا استحصال کر رہا ہے اور اس استحصال کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ 72 سالوں میں اسے ڈھیلا نہیں کیا جا سکا۔

ان استحصالی طاقتوں میں طبقاتی رشتے تو سب سے مضبوط رشتہ ہے لیکن اس رشتے کو اور مضبوط کرنے کے لیے استحصالی خاندانوں کے درمیان بھی رشتے داریاں قائم کی جاتی ہیں، یوں استحصالی طاقتیں اور مضبوط ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رشتے داریاں اعلیٰ سطح کی بیوروکریسی تک دراز ہیں یوں وڈیرے اور جاگیردار اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ ان سے کسانوں کی گردنیں بچانا بہت مشکل ہے۔ ہاری اور کسان اصل میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی رعیت ہیں اور اس رعیت کا جسمانی استحصال تو ہوتا ہی ہے لیکن ہاری اور کسان کا سیاسی استحصال اور زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

جمہوریت کو دنیا کا سب سے زیادہ "پوتر" نظام کہا جاتا ہے، عاشقان جمہوریت، جمہوریت کی شان میں ایسی ایسی لن ترانیاں کرتے ہیں کہ ظاہر میں اس نظام کا رعب و دبدبہ اس قدر موثر ہو جاتا ہے کہ عام آدمی اس سے مرعوب ہو جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام سے زیادہ غلیظ نظام سیاسی تاریخ میں نظر نہیں آتا۔

ہماری دیہی زرعی معیشت میں ہاری اور کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیرت اور تعجب کے ساتھ عاشقان جمہوریت پر ہے کہ انھیں 72 سال میں یہ نظر نہیں آیا کہ اس 95 فیصد ہاریوں اور کسانوں کی آبادی میں سے کوئی ایک ہاری یا کسان پارلیمنٹ کا ممبر نہ بن سکا؟ ایسا کیوں کیا عاشقان جمہوریت کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ رکن پارلیمنٹ ہونے کے لیے علم و آگہی ضروری ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ اب ہاریوں اور کسانوں کے بیٹے بھی علم و آگہی سے آراستہ ہیں بلکہ بی اے، ایم اے پاس ہیں اور کلرکی کے لیے جوتیاں گھسا رہے ہیں۔

ہاری اور کسان کی اولاد پارلیمنٹ کی ممبر کیوں نہیں ہو پاتی؟ ایک جاہل اور لٹھ مار وڈیرہ اور اس کی اولاد آسانی سے پارلیمنٹ کی ممبر کیوں بن جاتی ہے؟ یہ خدا کا کرنا نہیں بلکہ اس گندے استحصالی نظام کا کرشمہ ہے کہ ایک جاگیردار کا بیٹا محض اپنی "خاندانی وجاہت" کی بنیاد پر پارلیمنٹ کا ممبر بھی بن جاتا ہے اور وزیر اور وزیر اعلیٰ بھی بن جاتا ہے۔

کیا عاشقان جمہوریت جب جمہوریت کی شان میں قصیدہ خوانی کر رہے ہوتے ہیں تو کیا ان کی نظروں میں یہ تلخ حقائق ہوتے ہیں؟ ایک سیاست کی ابجد سے ناواقف شہنشاہ محض اپنی کلاس کے فسوں سے سیاسی پارٹیوں کا صدر اور چیئرمین بن جاتا ہے اور سیاست کے میدان میں بال سفید کرنے والے سیاسی کارکن ہی بنے رہتے ہیں۔

جمہوریت کتنی ہی گئی گزری کیوں نہ ہو خاندانی نہیں ہو سکتی۔ جب کہ ہماری جمہوریت خدا کے فضل سے پوری کی پوری خاندانی ہو گئی ہے۔ جمہوریت ہاریوں اور کسانوں کے دم سے زندہ ہے لیکن ان ہاریوں اورکسانوں کو جمہوریت کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہرکیا جاتا ہے۔ وہ ہاری اورکسان ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے غلام بھی بن گئے ہیں ہاریوں اورکسانوں کا سیاسی کام یہ ہے کہ وہ 5 سال میں ایک بار پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر وڈیروں، جاگیرداروں اور ان کی ناخلف اولاد کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں اور سر جھکا کر گھر واپس آجائیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کے قصیدوں سے عاشقان جمہوریت کی زبان نہیں تھکتی۔ پاکستان کے دیہی علاقے جمہوریت کی چراگاہ بنے ہوئے ہیں۔

آج اربوں کھربوں کی کرپشن کی جو داستانیں میڈیا میں گشت کر رہی ہیں وہ کرپٹ ایلیٹ کا تعلق نہ مزدوروں سے ہے نہ کسانوں سے نہ غریب طبقات سے نہ ان میں ادیب ہیں نہ شاعر، نہ صحافی نہ وکیل، نہ ڈاکٹر یہ سب اپر کلاس کے چرند ہیں جو 72 سال سے 22 کروڑ غریب عوام مزدور اور کسان کے کندھوں پر سوار ہے اور اس کلاس کے شہزادوں اور شہزادیوں نے پورے جمہوری نظام پر قبضہ کیا ہوا ہے یہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اگلے 72 سال کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں۔