دنیا میں ہزاروں سیاسی جماعتیں ہیں اور سیکڑوں سیاست دان ہیں، جمہوریت ایک کھیل ہے جس میں اہل سیاست حصہ لیتے ہیں لیکن اس کھیل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ان اصولوں کو فالو کرتے ہوئے اگر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تو مشکلات پیش آسکتی ہیں نہ قومی مفاد پر آنچ آسکتی ہے لیکن اس کھیل کے اصولوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو یہ کھیل انارکی میں بدل جاتا ہے۔
اس کھیل میں حکمران جماعت ایک ہوتی ہے، اپوزیشن جماعتیں ایک سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کھیل میں ہار جیت کا فیصلہ انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے۔ مغربی ملکوں میں عموماً اس کھیل کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اس لیے وہاں انارکی کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور یہ سیاسی کھیل پر امن طریقے سے جاری رہتا ہے۔ مغربی ملکوں میں بھی اس کھیل میں حصہ لینے والوں کو "خرچہ" کرنا پڑتا ہے لیکن یہ خرچہ اتنا ہوتا ہے کہ کھلاڑی کسی نہ کسی طرح اس کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔
لیکن ہمارے ملک کا اس حوالے سے باوا آدم ہی نرالا ہے۔ انتخابات دراصل اس کھیل میں میچ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اس میچ پر خرچہ ہوتا ہے لیکن خرچہ ووٹ خریدنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ میچ کو آرگنائزکرنے میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں یہ کھیل اور میچ دراصل اشرافیہ کی تفریح اورکمائی کا ذریعہ بن گیا ہے اس لیے کہ یہاں کھیل کے اصولوں کو فالو نہیں کیا جاتا۔ اس کھیل میں پہلی بڑی خرابی ہمارے ملک میں یہ پیدا کردی گئی ہے کہ عام آدمی خواہ وہ کتنا ہی اہل ہو اس کھیل میں شرکت کر ہی نہیں سکتا۔
اس کھیل اور میچ کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس کھیل کا مقصد مال کمانا بنا دیا گیا ہے اور حکمران جماعت اپنا سارا وقت کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال کمانے میں لگا دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔ اس کھیل کے اصولوں میں سب سے بڑا اصول قومی مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ اشرافیہ کے اقتدار سے بھری ہوئی ہے۔ 71سال میں پہلی بار مڈل کلاس اقتدار میں آئی ہے۔ ملک کی معیشت پچھلے دس سالوں میں تباہ ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ پچھلے دس سالوں میں جو کرپشن ہوئی ہے ملک کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کرپشن، کرپشن، کرپشن پاکستان کو قائم ہوئے 72 سال ہو رہے ہیں اس دوران بلاشبہ کرپشن ہوتی رہی ہے لیکن جو حال دس سالوں میں ہوا ہے اس کی بھی مثال نہیں مل سکتی۔
جمہوریت کے اس کھیل میں اس بات کا سختی سے خیال رکھا جاتا ہے کہ قومی مفادات اور قومی یکجہتی پر آنچ نہ آئے۔ اس احتیاط سے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس کھیل کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عوام اس کھیل میں شرکت نہیں کرسکتے حالانکہ جمہوریت کے اس سیاسی کھیل میں عوام ہی بنیادی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے عوام کو اس کھیل سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا ہے۔ اور قومی مفاد اور قومی یکجہتی کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ اس کھیل میں ٹیمیں سب سے پہلے ہی خیال رکھتی ہیں کہ قومی مفاد اور قومی یکجہتی پر آنچ نہ آئے لیکن مایوسی میں کھیل کے اصولوں کو روندا جاتا ہے۔
ہمارے سیاستدان عوام سے مایوس ہوکر قومی سیاست کرنے کے بجائے زبان اور قومیت کی خطرناک سیاست پر اتر آئے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ زبان اور قومیت کی سیاست کس قدر خطرناک سیاست ہوتی ہے۔ عوام کے دھتکارے ہوئے سیاستدان ہر قیمت پر اقتدار چاہتے ہیں کیونکہ یہ حضرات اقتدار کے بغیر پانی بن مچھلی ہوتے ہیں مشکل یہ ہے کہ میڈیا میں آنے والی کرپشن کی داستانوں نے عوام کو اس قدر بدظن کردیا ہے کہ وہ ان مطلبی سیاستدانوں کی شکلوں سے بے زار ہیں۔ اقتدارکی خاطر یہ محترم لوگ اس قدر گر گئے ہیں کہ قوم کی یکجہتی کو تار تارکر رہے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود ایک معمولی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں کرسکے۔
آج موجودہ عمران حکومت کو مہنگائی کا الزام دینے والے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ اپنے دور حکومت میں قرض لے کر مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ عوام اب سیاستدانوں اور ان کی سیاست کو خوب اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ عوام کی طرف سے مایوس ہوکر وہ جس خطرناک زبان اور قومیت کی سیاست پر اتر آئے ہیں انھیں علم ہے کہ زبان اور قومیت کی سیاست کس قدر خطرناک سیاست ہوتی ہے لیکن اقتدار ایک ایسی چیز ہے کہ سیاستدان اقتدار سے آگے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے اس ملک کی سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ نے قبضہ کرلیا ہے اور اس کھیل کو اس طرح آرگنائزکیا گیا ہے کہ اشرافیہ کے علاوہ اقتدار میں کوئی آ ہی نہیں سکتا۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوکر حکومت میں آئی ہے یہ تبدیلی اشرافیہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے جمہوریت کے اصولوں کے مطابق اقتدار میں آنے والی جماعت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کسی جماعت کو پانچ سال تک حکومت میں رہنے ہی نہیں دیا گیا۔ صرف پی پی پی ہی وہ جماعت ہے جس نے اپنی آئینی مدت پانچ سال پورے کیے ہیں نامکمل دورانیے کی ذمے داری بھی اشرافیہ پر ہی آتی ہے عوام کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
تحریک انصاف کوئی ہریجن جماعت نہیں کہ اس کو قبول ہی نہیں کیا جائے۔ اسے اس لیے ہریجن بنادیا گیا ہے کہ اس کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہے لیکن 72 سالوں خاص طور پر پچھلے دس سالوں میں لوٹ سیل کے ذریعے ملک کا وہ حال کردیا گیا ہے کہ ملک دیوالیے کے قریب پہنچ گیا تھا تحریک انصاف کے آنے سے لوٹ مار کا کھیل ختم ہوگیا ہے اور اشرافیہ سخت بے چین ہے کہ تحریک انصاف کو کس طرح نکال باہر کیا جائے۔
پچاسیوں ترکیبیں لڑائی جا رہی ہیں کہ کسی طرح حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ الزامات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لگائے جا رہے ہیں لیکن اشرافیہ عمران حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا سکی یہی وجہ ہے کہ عوام سخت مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہیں آرہے ہیں ہماری حمایت کی وجہ ہی یہی ہے کہ حکومت کرپشن سے بچی ہوئی ہے۔