72 سال سے جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے اصل معمار مزدور اور کسان ہوتے ہیں جنھیں جمہوریت کے قریب بھی نہیں آنے دیا جاتا۔
پانچ سال میں ایک بار انھیں دھوکا دے کر ان سے جمہوریت کے نام پر ووٹ لیے جاتے ہیں، بس اتنا ہی ان کا جمہوری کردار ہوتا ہے جو لوگ ان معصوموں سے ووٹ لیتے ہیں، وہ سرکاری خزانے کے مالک ہوتے ہیں۔
مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے کسانوں کی تعداد ان سے زیادہ ہے ان کروڑوں انسانوں کے علاوہ وہ ہیں جو جمہوریت کا مطلب بھی نہیں جانتے اور جن کی تعداد کروڑوں میں ہے ان سے بھی جمہوریت کے دھوکے میں ووٹ لے کر اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ یہ دھوکا عشروں سے غریب کھا رہے ہیں، انھیں جمہوریت کا کوئی پھل نہیں ملتا۔
یہ ہے اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حقیقت جس کا نام لے کر جمہوری اشرافیہ عوام کو مستقل بے وقوف بناتی آ رہی ہے۔ اب اس فراڈ سلسلے کو ختم ہونا چاہیے، مزدوروں میں تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں، کسانوں کے بچے بھی اپنی کوششوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، انھیں آگے لایا جائے انھیں الیکشن میں حصہ لینے کا موقعہ دیا جائے تاکہ انھیں بھی جمہوریت میں شرکت کا موقعہ مل سکے۔ جب تک ایسا نہ ہوگا اور جمہوریت کے نام پر اشرافیہ قانون ساز اداروں میں جاتی رہے گی، جمہوریت ایک چھوٹے سے طبقے کی میراث بنی رہے گی۔
جمہوریت کے نام پر آمریت کے زور پر جو لوٹ مار کی جاتی رہی اس کے چرچے آج تک جاری ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے اسرار سے واقف نہیں۔ اقتدار اتنی بری چیز ہے کہ ایک ہی طبقے کے لوگ آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں چونکہ ان کو پتا ہے کہ اقتدار دولت کی کنجی ہے سو ان کی ساری کوششوں کا مرکز اقتدار ہوتا ہے۔
آج کے سیاسی سیناریو پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اشرافیہ اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہے اور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اپنی طبقاتی کلچر کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام ہے، وہاں کے عوام اسی کو ووٹ دیتے ہیں جسے جاگیردار نامزد کرتے ہیں۔
اسی طرح سندھ میں وڈیرہ شاہی نظام ہے جہاں سندھ کے بادشاہ اور ان کی اولاد کا راج ہے، سندھ کے بادشاہ اور شہزادے جن کو ووٹ دینے کا اشارہ کریں بس انھی کو ووٹ دیتے ہیں، شہری علاقوں میں بھی مختلف کمیونٹیز کے سربراہوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور بھاری نذرانوں کے عوض عوام کے ووٹ حاصل کر لیے جاتے ہیں، یہ ہے ہماری جمہوریت جب اس طرح ووٹ حاصل کرکے ایلیٹ کلاس قانون ساز اداروں میں پہنچتی ہے تو لوٹ مار کا ویسا ہی بازار گرم کیا جاتا ہے جیسا ملک میں گرم ہے۔ یوں طاقتور طبقات سیاست اور اقدار دونوں پر قبضہ کرکے شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔
یہ سلسلہ دہائیوں سے چل رہا ہے اور اگرنچلے طبقوں کے لوگ بیدار نہیں ہوتے اور اس سسٹم کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تو یہ لوٹ مار کا نظام چلتا رہے گا۔ عوام بے چارے بھوک اور بیماریوں میں مبتلا رہیں گے۔ آپ ذرا پوش بستیوں کے ایوانوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ماضی کے بادشاہوں کی زندگی آج کی ایلیٹ کی زندگی کے سامنے پھیکی نظر آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ شاہی نظام اور اس کی خرابیاں ہمارے سامنے ہیں انھیں کس طرح نیست و نابود کیا جائے؟ یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے جس پر ہماری پڑھی لکھی ایلیٹ کو سوچنا چاہیے اور عوام کو راستہ دکھانا چاہیے اگر ایسا نہ ہوا تو یہ جابرانہ نظام یوں ہی چلتا رہے گا۔
دنیا کے جمہوری ملکوں میں پاکستان غالباً واحد ملک ہے جہاں سیاسی خاندانی حکمرانیوں کا راج ہے، آمروں کی اولاد بھی اس میں شامل ہے، پہلے کچھ زیادہ خاندان تھے اب ہزاروں خاندان ہیں، ان کے درمیان ہی اقتدار گھومتا رہتا ہے اور اب بھی یہی لوگ اقتدار کی لڑائی لڑ رہے ہیں، یہ ہے ہمارا جمہوری نظام، اس ماحول میں عوام کی جمہوریت کا تصور ماند پڑ جاتا ہے۔ عام آدمی ابھی پچاس سال تک بھی اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرسکتا، اس کے لیے جیساکہ ہم نے کہا ہے اہل علم اہل دانش کو آگے آنا ہوگا خاص طور پر اہل قلم حضرات کو اس حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنا ہوگی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام ابھی تک جانکاری کی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور جب تک جمہوریت کے حوالے سے ایک منظم مہم نہیں چلائی جاتی عوام میں بیداری کا پیدا ہونا مشکل ہے۔ ہماری اشرافیہ اس حوالے سے بہت دور اندیش ہے اس نے معروف اہل علم اہل دانش کو پہلے ہی اپنے دام میں پھنسا رکھا ہے اور یہ حضرات ٹی وی چینلز پر اپنی ٹھیکیداری کی ذمے داری پوری کر رہے ہیں، ایسی صورتحال میں نوجوان باخبر لوگوں کو آگے آنا پڑے گا اور عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کرنا ہوگی۔ اشرافیہ اپنے مفادات کے حوالے سے جتنی چوکنی ہے وہ آسانی سے عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے نہیں دے گی ا س لیے بہت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔