میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ابن آدم ہر جگہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑا ہے، وجہ الگ الگ ہے لیکن مقصد ایک ہے، ایک دوسرے سے نفرت ایک دوسرے سے عداوت، ایک دوسرے سے دشمنی۔ کہا جاتا ہے انسان عظیم ہے۔ جنگل میں رہنے والا انسان، دنیا سے الگ تھلگ رہنے والا انسان، دنیا سے کٹا ہوا انسان، دنیا میں رہنے والا انسان محبت، رواداری کا نام ہی نہیں جانتا۔ یہ کیسی دنیا ہے، یہ کیسا انسان ہے، یہ کیسے وچار دھارا ہیں، اس کو کیسی محنت سے کیسی مہارت سے بنایا گیا۔
ہاتھ پاؤں، آنکھ، ناک، دل، دماغ، پیٹ یہ سارے اعضا قدرت نے کتنی مہارت سے بنائے۔ کیا انسان ان اعضا کا درست استعمال کر رہا ہے۔ اگر نہیں کر رہا ہے تو کیا یہ اس کی ناشکری نہیں ہے۔ کائنات بہت بڑی ہے ناقابل تصور بڑی ہے، کرہ ارض اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ریت کے ذرے سے بھی چھوٹا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ذرے سے چھوٹا کرہ ارض پانچ بڑے بڑے بر اعظموں میں پھیلا ہوا ہے تو کائنات کتنی بڑی ہوگی؟ کیا اس کا تصور کیا جاسکتا ہے، اس پھیلے اور لامحدود بڑے کرہ ارض پر رہنے والا انسان نہ صرف ناشکرا ہے بلکہ اس قدر جھگڑالو ہے کہ اس نے دنیا کا امن غارت کر دیا ہے، دنیا میں ہونے والے فسادات نفرتیں خون خرابے میں عام انسان نظر آتے ہیں۔
دنیا بھر میں دنیا کے ہر ملک میں جنگیں لڑی جاتی رہیں اور لڑی جا رہی ہیں اور یہی فضا رہی تو لڑی جاتی رہیں گی۔ جنگ کا فیصلہ کرنے والے چند لوگ ہی ہوتے ہیں لیکن مرنے والے عام افراد لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ کیا لاکھوں انسانوں کے جینے اور مرنے کے فیصلوں کا اختیار صرف چند لوگوں کو ہونا چاہیے؟ یہ سوال ویسے تو بڑا مشکل ہے لیکن اس مشکل سوال سے لاکھوں انسانوں کی جانیں وابستہ ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں انسان مارے گئے۔
پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ان لاکھوں انسانوں کی جانوں کا فیصلہ چند افسروں چند سیاستدانوں کو کرنا چاہیے۔ ان فیصلہ کرنے والوں کو جیت کا لالچ دیا جاتا ہے۔ سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے مسئلے کا حل چند لوگوں کے حوالے کردیا جائے؟ یہ کسی طرح انصاف نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہزاروں انسانوں کی موت حیات اس قسم کے اندھے فیصلوں کے ہاتھوں دے دیے جائیں؟ انسانی جان بہت قیمتی ہوتی ہے خواہ وہ ایک سپاہی کی ہو یا ایک افسر کی۔ ہر صورت میں جنگ کا فیصلہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے جس طرح آج تک کیا جا رہا ہے۔
جنگ بندی وغیرہ کی احتیاطیں بعدازوقت ہیں اس حوالے سے جو قدم بھی اٹھائے جائیں وہ قبل ازوقت یعنی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہونے چاہئیں مثلاً ایک فورم یہ ہو جو دونوں متحارب فوجوں پر مشتمل ہو اور وہ فراخدلی سے یہ جائزہ لے کہ دونوں متحارب گروہوں میں زیادتی کس کی ہے۔ اس فورم میں بہت چھان پھٹک کے بعد ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو کسی حوالے سے بھی قوم پرستی میں ملوث نہ ہوں۔ دونوں متحارب گروہوں سے اس بات کا حلف لیا جائے کہ وہ کسی صورت میں کسی حوالے سے بھی جانبداری کا مظاہرہ نہ کریں، اگر ایسا غیرجانبدار فورم جب پوری سماعت کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہو تو دو متحارب گروہوں کو یہ فیصلہ ماننا چاہیے۔
اس دوران دونوں متحارب فوجوں کو بیرکوں میں ہی رکھا جائے۔ اس حوالے سے یہ بھی دیکھا جائے کہ دونوں متحارب گروہ ہتھیار کہاں سے حاصل کر رہے ہیں، اگر کسی تیسرے ملک کا ہتھیاروں کی سپلائی میں ہاتھ ہے تو ایسے ملک سے سختی سے جواب طلب کیا جائے کہ اس نے متحارب گروہوں یا فوجوں میں سے کسی ایک کو ہتھیار کیوں سپلائی کیے، اگر جواب ریزن ایبل ہو تو اس معاملے پر ایک خصوصی ٹریبونل سے مدد لی جائے، اگر یہاں بھی فیصلہ تشنہ رہ جاتا ہے تو سارے ملکوں کے دانشوروں کا ایک اجلاس بلایا جائے جو دونوں متحارب گروہوں کا جواب پوری ایمانداری اور غیر جانبداری سے دانشورانہ سطح پر اس پورے مسئلے کا جائزہ لے اور دوشی گروہ یا ملک کے لیے ایسی سزا تجویز کرے جس میں جنگ شامل نہ ہو۔
اس پراسیس میں جنگ کا امکان ختم ہو جاتا ہے چونکہ کسی فوج کا کوئی سپاہی جنگ کا حامی نہیں ہوتا لہٰذا فوج کو اس پورے پراسیس سے باہر رکھا جائے۔ اس حوالے سے اس بات کا سختی سے خیال رکھا جائے کہ عام آدمی ذمے دار گروہوں یا فریق میں سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ جان کا احترام بغیر کسی امتیاز کے کیا جائے۔
اس پراسیس کے مکمل ہونے تک جنگ کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ یوں انسانوں کے جانی نقصانات کا خدشہ ختم ہو جاتا ہے جب اس مسئلے سے فوج باہر آ جاتی ہے تو ایک تقریب جو مشترکہ ہو منعقد کی جائے جس میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے والوں کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں امن ایوارڈ سے نوازا جائے۔ اس پورے پراسیس میں مثبت کردار ادا کرنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے اور منفی کردار ادا کرنے والوں کی ہر طرح مذمت کی جائے۔
اس میں اصل مسئلہ ان ظالموں کا ہے جو اپنے مفادات کے لیے جنگوں کی راہ ہموار کرتے ہیں، یہ سب سے بڑے مجرم ہیں، اور انھیں سب سے زیادہ سب سے بڑی سزا ملنی چاہیے۔ اس کا فیصلہ وہ تمام متحارب گروہوں کے نمایندے کریں کہ جنگ کی راہ کس نے ہموار کی اور معصوم انسانوں کی جانوں کا زیاں کس کی غلطی سے یا ارادتاً کیا گیا۔ اس پراسیس سے جنگوں کی روک تھام کا بامقصد اور یقینی اہتمام ہو جاتا ہے اور چند لوگوں کے احمقانہ اور ذاتی فیصلوں یا جانبدارانہ فیصلوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
صرف بیسویں اور اکیسویں صدی میں کتنی جنگیں ہوئیں اور کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ان اہم ترین مسئلوں پر سوچ سوچ کے ہمارا دماغ اس قدر نازک ہو گیا ہے کہ ہمیں برین ہیمبرج کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے لیکن میں نے بھی یہ طے کیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے کالم مکمل کیا جائے گا۔ کالم تو مکمل ہو رہا ہے لیکن جن مسئلوں پر ہم نے قلم اٹھایا ہے وہ ابھی تشنہ ہیں، ہم نے بالواسطہ جن رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے اگر یہ پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں تو جنگ سے پہلے کی شرائط ہی جنگ کو روکنے کا کارن بن جاتی ہیں، ان شرائط کو پڑھ کر اسے دیوانے کی بڑ کہا جاسکتا ہے لیکن دیوانے بعض وقت فرزانوں سے بہت بہتر ثابت ہوتے ہیں۔