اٹھارہ سال تک جنگ لڑنے والوں کو انیس سال بعد عقل آئی کہ جنگ ایک احمقانہ فعل ہے، اگر سو سال بھی جنگ لڑی جائے تو آخر کار جنگ بازوں کو ایک دن مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑتا ہے، سو یہی ہوا امریکا اور طالبان 18 سال تک لڑتے رہنے کے بعد آخر کار مذاکرات کی میز پر آئے اور یوں یہ 19 سالہ احمقانہ جنگ کا انت ہوا۔
جب تک دنیا میں شیطان زندہ ہیں کسی اچھے اور عوامی بھلائی کے کام کو حتمی نہیں کہا جاسکتا اس تناظر میں افغان اور امریکا کے جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی اور دائمی نہیں کہا جاسکتا لیکن قتل و غارت کا رکنا خواہ وہ کسی حوالے سے ہو ایک انسان دوست کام ہی کہلا سکتا ہے۔
اس جنگ بندی سے بلاشبہ صرف افغان عوام ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کے عوام کو اطمینان نصیب ہوا، خوشی ہوئی سوائے ہتھیاروں کی تجارت کرنے والوں کے جن کے کاروبارکا ایک چینل بند ہوا۔ کیا دنیا کے عوام اس حقیقت کو سمجھ سکیں گے کہ دنیا میں جنگوں کے لیے راہ ہموارکرنے جنگوں کی فضا بنانے کے لیے بھاری معاوضوں پر اسپیشلسٹ رکھے گئے ہیں جو مقامی دلالوں کے ذریعے ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ جنگیں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور چوتھی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن چوتھی جنگ بوجوہ اس لیے رکی ہوئی ہے کہا جاتا ہے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے بھی جنگیں رکی رہتی ہیں روایتی ہتھیاروں سے گزر کر ہمارے اکابرین نے ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں جو جنگوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہے نا یہ دلچسپ بات فیصلہ کن جنگ کا ہتھیار جنگوں کو روکنے کا سبب بن گیا ہے۔
امریکا اور دنیا کے بے تاج بادشاہ ٹرمپ قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے جنگ بندی کا نظر نہ آنے والا حکم دے کر فی الوقت جنگ کو روک دیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ چتاونی بھی دی ہے کہ افغان قیادت نے اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو ہماری " خدمات " حاضر ہیں۔ اس چتاونی کا مقصد بے لگام گھوڑوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
افغانستان کا تعلق ایک قبائلی معاشرے سے ہے یہاں کے " دانشوروں " کو مشیر کہا جاتا ہے اور یہ مشیر ہی اپنی قوم کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ مشیر ماضی میں عقل سے بے بہرہ ہوتے تھے لیکن دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے انھیں واقعی مشیر بنا دیا ہے اب وہ سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔
قبائلی عوام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے مشیروں کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں خواہ اس تعمیل میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے اس حکم کی تعمیل کو عام آدمی بہادری کہتا ہے اس 18 سالہ جنگ کے "رک" جانے کے بعد امریکا بہادر 14 ماہ میں اپنی فوجیں واپس بلا لے گا۔ ہم نے کہا تھا کہ دنیا میں مختلف امور پر سروے کرنے والی ٹیمیں اگر فائدہ مند سمجھیں تو دنیا میں صرف پچھلے دو سو سالوں میں لڑی جانے والی جنگوں کا سروے کرکے یہ دیکھیں کہ یہ جنگیں کیوں لڑی گئیں۔ ان جنگوں میں عقل کا کتنا دخل تھا، گدھے پن کا کتنا دخل تھا ان جنگوں میں کتنا جانی نقصان ہوا۔ یتیموں اور بیواؤں کی فوج میں کتنا اضافہ ہوا؟
کہا جاتا ہے کہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ چند بڑے ملکوں کے بادشاہ جمہوری انداز میں کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بڑی دلچسپ ہے کہ ہماری جمہوریت عوام کے جھنجھٹ سے نکل کر اب خاندانی جمہوریت میں بدل گئی ہے آپ آج کی ماڈرن جمہوریت پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلے ولی عہدوں، ملکاؤں اور شہزادیوں کی ٹکریاں نظر آتی ہیں۔ مغلوں کے زمانے میں امرا تہذیب اور اخلاق سیکھنے کے لیے اپنے ولی عہدوں کو طوائفوں کے پاس بھیجا کرتے تھے آج کے جمہوری بادشاہ اپنے ولی عہدوں کو حکومت کرنے کے گر سکھانے کے لیے جلسوں جلوسوں، پریس کانفرنسوں میں بھیجا کرتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ ایشو افغان جنگ بندی کا تھا عقل ماری گئی بیدری کی وہ جمہوری بادشاہوں، شہزادوں وغیرہ کی بھیڑ میں گھس گئے۔
بات دراصل یہ ہے کہ معاشرے جمہوری ہوں یا قبائلی قوموں کی زندگی اور قومی مسائل کے فیصلے چند "مشیران" ہی کرتے ہیں۔ افغان جنگ کے دو فریق ہیں امریکا اور افغانستان۔ افغان جنگ نہ امریکی عوام سے اجازت لے کر شروع کی گئی تھی نہ افغان عوام سے اجازت لے کر۔ ہاں اس جنگ میں ہر طرح کا نقصان عوام کا اور تھوڑی سی تنخواہ لے کر جان دینے اور جانے لینے والوں کا ہی ہوا۔ ہم معافی چاہتے ہیں کہ ہم اصل ایشو کو چھوڑ کر "فضول باتوں " میں بھٹک گئے۔ دنیا کے امریکا اور افغانستان کے عوام کو خصوصی مبارک باد۔