کراچی میں جرائم کی تعداد اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے ہر روز اسلحہ بردار ڈکیت مسلسل ڈکیتیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں اور عام شہری دھڑلے سے لٹ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر میں اب پولیس، صرف یونیفارم پہننے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، جرائم پیشہ افراد اسلحے کے زور پر کسی کو بھی کہیں بھی لوٹ سکتے ہیں۔
پولیس کا کام سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر گشت کرنا رہ گیا ہے۔ کراچی پولیس جو ایک زمانے میں بڑی فعال ہوا کرتی تھی اب صرف یونیفارم پہن کر گشت کرنے کی خدمت انجام دے رہی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ اس دھڑلے سے جرائم کا ارتکاب کیوں اور کیسے کر رہے ہیں؟ کوئی شخص نہ گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد چھلاوے کی طرح منٹوں میں واردات کرکے چلے جاتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے افراد منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں، اگر کسی بدقسمت نے مزاحمت کی کوشش کی تو اسے گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ جب جرائم کا حال یہ ہو تو پھر شہری کہاں جائیں؟
کراچی ایک ترقی یافتہ شہر ہے جہاں ہر روز اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، ایسے تجارتی شہر میں اگر جرائم کا حال یہ ہو کہ کوئی گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر تو پھر کیا عوام پولیس اسٹیشنوں میں پناہ لیں؟ یہ سوال اتنا مایوس کن ہے کہ شہری اب گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔
شہر میں رنگا رنگ وردیوں اور نئی نئی گاڑیوں میں گھومنے والے سپاہی جرائم کو تو نہ روک پا رہے ہیں البتہ گشت میں مصروف رہتے ہیں۔ پولیس حکام کا حال یہ ہے کہ حکمران طبقہ اپنی پسند کے افسران لگانے اور ہٹانے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ اب یہ بات کوئی سیکرٹ نہیں رہی کہ لوٹ کے مال میں قانون نافذ کرنے والوں کا حصہ بھی ہوتا ہے اور یہی کلچر جرائم میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ شہری دو طرح سے پریشان ہیں ایک ڈاکوؤں سے دوسرے کورونا وائرس سے اور یہ دونوں ہی بیماریاں لاعلاج ہیں بے چارے ان دو مصیبتوں میں گھرے حیران ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں؟
ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قدر غیر ذمے دار ہیں کہ شہری ان سے مدد لیتے ہوئے خوفزدہ رہتے ہیں کہ تاوان کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی، ایف آئی آر درج ہونے کے بعد شہری کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے کہ وہ تازہ صورتحال معلوم کرنے کے لیے روزانہ پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹتا رہے اور جب کہیں یہ ڈیوٹی ادا کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو اپنے لوٹے ہوئے مال سے دست بردار ہو کر گھر میں بیٹھ جاتا ہے جب تک لوٹے ہوئے مال کے حصے بخرے ہو جاتے ہیں حق بہ حقدار رسید کے مصداق لوٹے ہوئے مال میں سے حسب توفیق بٹوارا ہو جاتا ہے۔
چوری، ڈکیتی لوٹ مار کرنے والوں کا تعلق عموماً ملک کے دوسرے شہروں سے ہوتا ہے اور وہ لوٹ کا مال لے کر کچھ دن آرام کرنے کے لیے اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں چند دن آرام کرکے اور لوٹے ہوئے مال کو ٹھکانے لگا کر پھر اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لوٹ کے مال میں سرکاری اہلکاروں کا معقول حصہ ہوتا ہے اور اس حصے ہی کی وجہ سے سرکاری اہلکار جرائم پیشہ افراد کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ روٹین جب تک چلتی رہے گی کراچی میں جرائم کی بھرمار رہے گی۔
یہ تو ہوئی انسانوں یا انسان نما حیوانوں کی روداد۔ اب ذرا اس بلائے بے درماں پر ایک نظر جسے دنیا کورونا کے نام سے جانتی ہے اگرچہ کراچی بلکہ پورے پاکستان میں کورونا کے نقصانات مغربی ملکوں سے بہت کم ہیں لیکن اس کی دہشت اتنی زیادہ ہے کہ ہر شخص سہما ہوا ہے۔
اب اس حوالے سے یہ بات قابل اطمینان ہے کہ کورونا کی ویکسین تیارکرلی گئی ہے چین سمیت دوسرے ملک ایسے ملکوں کو ویکسین فراہم کر رہے ہیں جو ویکسین تیار کرنے کے قابل نہیں، کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بھی ویکسین تیاری کے مرحلے سے گزر رہی ہے اگر پاکستان عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق ویکسین تیار کرلیتا ہے تو نہ صرف پاکستان اس حوالے سے خودکفیل ہو جائے گا بلکہ ضرورت مند ملکوں کو ویکسین فراہم بھی کرے گا۔
کورونا ایک ایسا مرض ہے جو بے احتیاطی کی وجہ سے پھیلتا چلا جاتا ہے حکومت پاکستان نے عوام کو اس وبا سے بچانے کے لیے ایس او پیز کے نام سے احتیاطی تدابیر بتائی ہیں جو بالکل آسان ہیں مثلاً دن میں کئی بار صابن سے ہاتھ دھونا، منہ پر ماسک لگانا اور ایک دوسرے سے کم ازکم چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا۔ یہ آسان ترین احتیاط ہے جس پر ہر شخص عمل کرسکتا ہے لیکن ہماری کاہلی کا عالم یہ ہے کہ ان آسان ترین احتیاطوں میں سے کسی احتیاط پر عمل کرنے کی زحمت نہیں کی جا رہی ہے جس کا نتیجہ وائرس میں اضافے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر خطرناک وبا سے بچنے کے لیے معمولی سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے بھی ہماری نواب عوام گریزاں رہتی ہے ہر بازار ہر مارکیٹ میں سیکڑوں عوام کی بھیڑ لگی رہتی ہے جو نہ صرف احتیاطی تدابیر کی سراسر خلاف ورزی ہے بلکہ اس احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے والے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
کیونکہ یہ عوام کی جان کا معاملہ ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سختی سے ایس او پیز پر عملدرآمد کرائے، عوام کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جانی چاہیے کہ وہ ایس او پیز پر عمل نہ کرکے موت کو دعوت دے رہے ہیں، چونکہ ہماری عوام ڈنڈے کے بغیر کسی ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے لہٰذا مجبوراً خود عوام کے مفاد کی خاطر سختی سے ایس او پیز پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے۔