وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنے شہر کے دورے کے دوران کہا ہے کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے کے لیے 10 ارب ڈالر درکار ہیں۔ شہر کے مسائل نئے نہیں پرانے ہیں، کچرے کا نہ اٹھایا جانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم اس کام میں کامیابی نہ حاصل کرسکے۔
تسلیم کرتا ہوں کہ کے ایم سی کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بجا فرمایا ہے کہ کراچی کے مسئلے نئے نہیں "بہت پرانے" ہیں، کراچی میں کچرے کا نہ اٹھایا جانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ہیں۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔
مراد علی شاہ نے بجا فرمایا ہے کہ کراچی کے مسائل نئے نہیں بہت پرانے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ پچھلے چار سالوں میں نالوں کی صفائی پر بہت کام کیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے مسائل کتنے پرانے ہیں؟ دس سال پرانے، بیس سال پرانے، تیس سال پرانے، چالیس سال پرانے یا اس سے زیادہ پرانے؟ کراچی پر سب سے زیادہ عرصے تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی بلکہ پیپلز پارٹی ہی جمہوریت کی ٹھیکیدار بنی رہی، اس طویل عرصے میں کیا پیپلز پارٹی کو کبھی یہ خیال آیا کہ کراچی کا انفرااسٹرکچر بہت پرانا ہو گیا ہے، اب اسے بدلنا چاہیے؟
مراد علی شاہ نیو کمرز ہیں اس لیے سارا الزام ان پر عائد نہیں ہو سکتا لیکن دو تین ٹرمز پورے کرنے کے دوران جس کا عرصہ پندرہ سال ہوتا ہے کیا پیپلز پارٹی کو احساس نہیں ہوا کہ کراچی کے مسئلے پرانے ہوگئے ہیں، اب انھیں حل ہونا چاہیے۔ یہاں اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کروں گا، یہ غالباً 1972 کا سال تھا، پیپلز پارٹی نئی حکومت میں آئی تھی، بھٹو صاحب شملہ کانفرنس میں جانے کی تیاری کر رہے تھے، بھٹو صاحب ملک کے بڑے شہروں کے دورے کر رہے تھے، اس حوالے سے موصوف کراچی تشریف لائے اور سندھ حکومت بلڈنگ میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں کراچی کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا گیا جن میں ہم بھی شامل تھے۔
دوران کانفرنس سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے براہ راست بھٹو صاحب سے سوال کیا آپ کے ایک وزیر کرپشن کے حوالے سے بدنام ہیں، آپ کو علم ہے؟ اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا "آپ بجا فرما رہے ہیں، ہماری حکومت نئی نئی ہے ابھی ہم کام کو آرگنائز کر رہے ہیں۔ جلد حالات بہتر ہوجائیں گے" اس زمانے میں بھی کے ایم سی کا یہی حال تھا۔ یہ 1972 کی بات ہے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا۔
پیپلز پارٹی نئی نہیں بہت پرانی پارٹی ہے، 1972 میں پاکستان میں جو پہلی حکومت بنی وہ پیپلز پارٹی کی تھی، اس سے پی پی پی کی قدامت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، اس طویل عرصے میں پی پی پی جمہوریت کا تقریباً نصف حصہ اقتدار میں رہی۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے وزرا عوامی مزاج کے حامل تھے، اس دور میں ہم مزدوروں کی سب سے زیادہ بڑی اور مقبول جماعت لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے سیکریٹری جنرل تھے۔
ستار گبول سندھ حکومت کے وزیر محنت تھے ہمارا ان سے اکثر رابطہ رہتا تھا ان کے عوامی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار ہم ستار گبول کے آفس میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہماری زبان سے نکلا۔ ستار بھائی! آپ وزیر محنت ہیں، آپ کو پتا ہے کہ جیل میں کتنے مزدور اور کتنے مزدور رہنما قید ہیں۔ بولے نہیں معلوم، چلو جیل ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اور چند دوست ستار گبول کی پرچم لگی گاڑی میں جیل گئے اور مزدوروں سے ملاقات کی۔ ستار گبول کس قدر عوامی ذہن کے اور سادہ لوح تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ ہم نے ازراہ مزاج ستار گبول سے کہا کہ بھائی ستار! تم مزدوروں سے ملنے جا رہے ہو اور مزدوروں کے وزیر ہو، کیا مزدوروں کے لیے سگریٹ بھی نہیں لوگے؟
ستار گبول نے جمشید روڈ پر ایک پان کی دکان کے آگے گاڑی رکوائی، نیچے اتر کر سگریٹ کے ڈبے لیے، پھر گاڑی جیل کی طرف روانہ ہوئی، یہ تھے اس وقت کے وزیر۔ ذرا اس دور کے وزرا سے آج کے دور کے وزرا کا موازنہ کریں وزرا کی اصلیت کا پتا چل جائے گا۔ پیپلز پارٹی بھٹو دور تک عوامی رنگ لیے ہوئے تھی پھر یہ نوابوں کی پارٹی بن گئی۔ کچرا اس زمانے میں بھی ہوا کرتا تھا لیکن کے ایم سی فعال تھی، سو کراچی کچرے کا ڈھیر نظر نہیں آتا تھا۔ آج بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہے اگر باہر کا کوئی ملک کچرا خریدنا چاہے تو پاکستان آدھی دنیا کو کچرا دے سکتا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ ہیں جو کرپشن سے شروع ہوتا ہے اور کرپشن پر ختم ہوتا ہے، اس نظام میں کسی حکومت کی کارکردگی دیکھنا چاہو تو سندھ کے وزیر اعلیٰ کی طرح یہ قبول کرنا پڑے گا کہ "میں مانتا ہوں " خرابی انسانوں میں ہو سکتی ہے لیکن اصل خرابی "سرمایہ دارانہ نظام" کی ہے اگر کوئی آدمی اس نظام کی موجودگی میں کچھ عوامی بھلائی کے کام کرنا چاہتا ہو تو وہ خیالی باتیں ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ فرما رہے ہیں کہ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے۔ تو وزیر اعلیٰ بجا فرماتے ہیں لیکن عوام کا سوال یہ ہے کہ "ایسا کیوں ہے؟ "