ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بدترین دشمن بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کورونا نے ساری دنیا میں دشمنی کے کلچر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہماری حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات اپنی جگہ لیکن ساری دنیا کی مشترکہ دشمن کورونا کی وبا نے انسانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات اپنی دشمنیوں کو جامد کر دیں جب انسان کورونا کے عذاب سے نجات پالے گا تو پھر پرانی عداوتوں کا دفتر کھولیں حالانکہ اگر ہمارے سیاستدان چاہیں اور ایمانداری سے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرلیں اور بددیانتی کے بوجھ سے آزاد ہوکر کورونا سے انسانوں کو بچانے کی ایماندارانہ کوششیں کریں۔
سیاست ایک گالی بن گئی ہے یا بنادی گئی ہے کہ ایماندار اور مخلص لوگ اس کے نام سے گھبرا جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت نے انسان کو اندھا بنا دیا ہے اور اس دولت کی خاطر اہل سیاست عوام میں اس قدر غیر مقبول ہو گئے ہیں کہ عوام کرپٹ سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ گھر میں جھوٹ دوستوں میں جھوٹ جھوٹ اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہر جگہ جھوٹ ہی کا ورد کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے اور میں خود کہتا ہوں کہ انسان کو جانور بنانے والا وہ نظام ہے جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں اس نظام کی گھٹی میں جھوٹ مکر و فریب دھوکہ، بددیانتی یہ وہ سوغاتیں ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام نے معصوم انسان کو دی ہیں۔ اس حوالے سے ان حقائق کا ذکر ضروری ہے کہ دنیا کے عوام کا 90 فیصد حصہ ان برائیوں سے دور ہے اور وہ طبقہ ہے غربا کا نہ وہ داؤ پیچ جانتے ہیں جو حرام کی کمائی کے لیے ضروری ہیں نہ یہ غریب یہ خواہش کرتے ہیں کہ دنیا میں اپنا منہ کالا کریں۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ دنیا بھر کے عوام جس نظام سے نفرت کرتے ہیں وہ نظام عوام کے پاؤں کی بیڑیاں کیوں بنا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست اور اقتدار پر اسی طبقے کا قبضہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی جن میں مسٹر، مولانا، سب شامل ہیں اپنی جیبیں گرم کرنے، بے ایمانی کی دولت حاصل کرنے کے لیے اپنا دین دھرم سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ انقلابی حضرات نے درمیانے طبقے یعنی مڈل کلاس کو عوام کا رہنما قرار دیا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ مڈل کلاس کی اکثریت سرمایہ داروں کے کارندوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کو فی الوقت اپنی لڑائیاں اپنے اختلافات روک کر کورونا کو ختم کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل کریں لیکن حکومت کم اپوزیشن زیادہ محاذ آرائی کرتی نظر آرہی ہے اس کے پاس بہت سلجھے ہوئے اور بارہ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے اداکار موجود ہیں جب کہ حکومت اپنے پیاروں کو ابھی تک سیاست کی الف ب سکھانے میں مصروف ہے۔ عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ جلدی میں جو کارکن اس کے ہاتھ لگے وہ لیے لیے، عمران خان کو یہ خیال نہ رہا کہ وقت کے سب سے گھاگ لوگوں سے ان کا سامنا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ 72 سال سے پاکستان پر اشرافیہ ہی برسر اقتدار ہے اتنی طویل تاریخ یعنی 72 سال میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر وہ بھی اکھڑ بندہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے، یہ اکھڑ بندہ اصل میں ایلیٹ کو ہضم نہیں ہو رہا ہے مڈل کلاس کے ایک سیدھے سادھے مسلمان کو ہماری ایلیٹ وزیر اعظم کی حیثیت میں دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ مڈل کلاسر کی حکومت میں اپوزیشن بنے رہنا اسے کسی قیمت پر منظور نہیں یہی اصل مسئلہ ہے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کی خواہش سے کیا تھا لیکن ہم دو سطر بھی نہیں لکھ پائے تھے کہ ہمیں احساس ہو گیا کہ ہماری خواہش خواہ وہ کتنی ہی مخلصانہ کیوں نہ ہو بچکانہ ہی لگتی ہے کیونکہ اپوزیشن اقتدار سے کم پر راضی ہوتی نظر نہیں آتی، ادھر حکومت اتنے بڑے بڑے مسائل کے باوجود بڑے اطمینان سے کام کر رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کا مسئلہ بڑا خطرناک تھا لاکھوں دیہاڑی دار مزدور جو روزگار کماتے تھے روز کھاتے تھے لاک ڈاؤن نے ان سے ان کی روز کی کمائی چھین لی جس کا مطلب فاقہ کشی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے ایسے میں اگر مزدور سڑکوں پر آجاتے تو بڑی سنگین صورت حال پیدا ہو سکتی تھی لیکن ہمارے مزدوروں کا حکومت پر اعتماد تھا سو انھوں نے اس نازک گھڑی میں بھی صبر کا مظاہرہ کیا۔
اس وقت ساری دنیا ایک ایسے کرائسس سے گزر رہی ہے جس کا سامنا پہلے آج کی دنیا نے نہیں کیا یہ کسی ایک ملک کا مسئلہ ہے نہ کسی ایک مذہب و ملت کا، یہ ایک خطرناک ترین عالمی مسئلہ ہے اور دنیا کو متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا ورنہ تباہیوں میں اضافہ ہوگا، ہماری اپوزیشن حکومت سے مفاہمت کے مسئلے کی سخت خلاف ہے کیونکہ حکومت سے کم پر وہ راضی نہیں ایسی صورت میں اتنا تو ہو سکتا ہے کہ الزامات اور جوابی الزامات سے تو اجتناب کیا جاسکتا ہے۔