اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ تبدیلی سرکار نے عوام کی زندگی تباہ کر دی۔ دو سال میں مہنگائی، بے روزگاری بڑھی ہے، ان کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
تبدیلی سرکار نے عوام کی زندگی تو تباہ نہیں کی نہ لوٹ مار کی اگر کچھ کیا تو یہ کیا کہ بے ایمانی نہیں کی، ایمانداری سے تین سال پورے کیے زرمبادلہ میں غیر متوقع اضافہ کیا سابقہ حکومتوں کے لیے ہوئے قرض میں بہت کمی کی، قرض کی روٹی کی بجائے حلال کی اور محنت کی روٹی عوام کو فراہم کی عزت و آبرو سے زندہ رہنے کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ان حقائق کی روشنی میں درست نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں کرپشن کی جو داستانیں سننے میں آئیں ان کی روشنی میں "تبدیلی سرکار" نے بس اتنا کیا کہ لوٹ مار کی گنگا کو مزید بہنے سے روک دیا۔
ہماری جمہوریت میں اپوزیشن کا کام حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن تنقید کا کوئی سر پیر تو ہونا چاہیے۔ اگر بغیر سر تا پیر کے تنقید کرنا مقصود ہو تو اسے کون روک سکتا ہے۔ اس حوالے سے دو کام اگر کر لیے جائیں تو بہت سارے سربستہ راز آشکار ہو جائیں گے۔ اول یہ کہ "پرانی سرکار" کی آمد سے پہلے سرکار کے پاس کتنا مال تھا سرکار کے جاتے وقت پرانی سرکاروں کے پاس کتنا مال تھا اس کا حساب ایمانداری سے کر دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس عرصے میں کس کس کو کتنا "نوازا" گیا اس کا ایک سرسری جائزہ پیش کر دیں اور ایمانداری سے کر دیں تو عوام پر پرانی سرکار کا بڑا احسان ہو گا۔ اصل میں ہماری پرانی سرکار کے پاس اب الزامات کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے تو مجبوراً آئیں، بائیں، شائیں پر اتر آئی ہے بلاشبہ پرانی سرکار کے دور میں عوام کو دو روٹی مل رہی تھی لیکن یہ دو روٹی قرض کی تھی اب نئی سرکار بقول پرانی سرکار عوام بھوکے مر رہے ہیں۔
لیکن پرانی سرکار نے یہ نہیں بتایا کہ عوام بھوکے کہاں مر رہے ہیں اور کیسے مر رہے ہیں۔ پرانی سرکار نے آٹا، چینی، گندم وغیرہ کو اڑن چھو بنا کر نئی سرکار کو سر کے بل کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نئی سرکار اپنے پیر اور مضبوطی سے جما کر کھڑی ہو گئی۔
اگرچہ نئی سرکار نے پرانی سرکار کے اربوں کے قرض ادا کر دیے جن کی ذمے داری پرانی سرکار پر آتی ہے لیکن پرانی سرکار نے اتنے بھاری مقدار میں قرضے لیے تھے کہ ادائیگی کے بعد بھی ابھی اربوں کے قرض باقی ہیں۔ اگر سابقہ سرکار یعنی پرانی سرکار مبینہ لوٹ مار کی بھاری رقم میں سے صرف ایک فیصد بھی دے دے تو نئے پرانے سارے قرض ادا ہو جائیں گے اگر پرانی سرکار یہ کام کر دے تو عوام ممنون ہوں گے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پرانی سرکار نے نئی سرکار کو چلتا کرنے کے لیے سر پیر کا زور لگا لیا لیکن نئی حکومت ایسے پیر جما کر بیٹھی ہے کہ اس کو ہلانا بھی مشکل ہے اب سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے کوئی راستہ نہیں۔
اب ذرا سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ نئی حکومت نے بلاشبہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن پرانی حکومت نے ملک کو جہاں چھوڑا تھا اس سے بہرحال آگے لے گئی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ معاشی حوالے سے ملک پیچھے نہیں آگے جا رہا ہے۔ یہ سب سے اہم بات ہے موجودہ حکومت نے سب سے بڑی نااہلی کا مظاہرہ یہ کیا ہے کہ جس مہنگائی کو آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔
اسے اس طرح بے لگام چھوڑ دیا کہ عوام واقعی اس سے پریشان ہو گئے ہیں یہ حکومت کی ایسی بڑی نا اہلی ہے کہ جسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ نئی حکومت کے وزراء نا تجربہ کار ہیں انھیں نہ عوامی سائیکی کا پتہ ہے نہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے اس کا علم۔ ناتجربہ کاری قابل معافی غلطی ہے اس لیے عوام اسے برداشت کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم محنت کر رہے ہیں لیکن اگر کوئی تجربہ کار شخص وزیر اعظم ہوتا تو اپوزیشن اب تک ختم ہو چکی ہوتی۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ سر سے پیر تک کرپشن کا شکار رہ چکی ہے اور کرپشن کی یہ داستانیں اس قدر بڑے پیمانے پر پھیلی ہیں کہ اپوزیشن کے پاس اس کی تردید کی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری بات یہ نظر آتی ہے کہ حکومت کو جیسا متحد ہونا چاہیے وہ ویسی متحد ہے نہ یکسو ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکومتی ارکان میں نا اتفاقی کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی کہانیوں میں بدل رہی ہیں۔ حکومت کو اس صورت حال پر کنٹرول کرنا چاہیے۔
ہم نے بار ہا کہا ہے کہ ہم ابتدا سے اس حکومت کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کہ نہ یہ کرپٹ ہے نہ اس کا تعلق ایلیٹ سے ہے، یہ دو ایسی خوبیاں ہیں جو ہمیں اس حکومت کی حمایت پر مجبور کرتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سوائے ابتدائی عرصے کے بعد آنے والے سب ایک سے بڑھ کر ایک کرپٹ تھے۔ اور اسی کرپشن نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا، اگر پاکستان کے سیاست دان ایماندار ہوتے تو یہ ملک بہت تیزی سے ترقی کرتا۔ آج جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتا، لیکن منفی سیاست نے اس ملک کو تباہ کر دیا۔