یہ بڑی عجیب اور حیرت انگیز بات لگتی ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ اور باشعور شہر میں کورونا وائرس کے حوالے سے جو ایس او پیز بنائے گئے ہیں، ان پر ذرہ برابر بھی عمل نہیں ہو رہا ہے اورعام آدمی تو نہیں، حکومت بہرحال جانتی ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔
لوگ اپنی کوتاہی اور لاپرواہی سے ہزاروں کی تعداد میں جان سے جا رہے ہیں۔ ہرطرف ایک خوف و ہراس کی فضا موجود ہے، اس حوالے سے سب سے پہلے حکومت کی نااہلی اور غیر ذمے داری کو سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ کیا حکومت کو اس لاپرواہی اور غیر ذمے داری کے نتائج کا اندازہ ہے۔ عام آدمی اس قدر غیر ذمے دار ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمد نہ ہونے کے نتائج سے مطلق واقف نہیں، اس لیے وہ ان پر عملدرآمد سے لاپرواہی برت رہا ہے۔
ساری دنیا اس وقت زندگی اور موت کے درمیان خوف کے عالم میں کھڑی ہے، عام آدمی نہ کورونا وائرس کے نقصان سے واقف ہے نہ اسے یہ پتا ہے کہ ایسے نازک وقت میں اس کی ذمے داری کیا بنتی ہے؟ یہ حال صرف ہمارے ملک کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ہے۔ موت سامنے کھڑی ہے اورعام آدمی اس سامنے کھڑی موت سے بے نیاز اپنی زندگی کے بکھیڑوں میں پڑا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی اس نادانی اور حکومت کی اس مجرمانہ غفلت سے عام آدمی کو جو نقصان پہنچے گا، اس کا ذمے دارکون ہوگا؟
ہر جگہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے اس وبا پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری حکومت بھی ڈرتے ڈرتے لاک ڈاؤن کی طرف آتی ہے، لیکن تاجر برادری کے شور مچانے پر پھر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے لوگ سرے سے موجود ہی نہیں جواس نازک گھڑی میں قوم کی رہنمائی کرسکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف ایک خطرناک خوف کی فضا قائم ہے عام آدمی کو اس خطرناک صورت حال کا معمولی سا اندازہ ہے لیکن وہ اس کے سنگین نتائج سے واقف نہیں اور محض وقت گزار رہا ہے۔
اصل پریشانی یہ ہے کہ سیاسی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے آپ کو زندہ ثابت کرنے کے لیے جلسوں اور ریلیوں کا ایک مسلسل پروگرام شروع کیا ہے۔ بہ ظاہر اس پروگرام سے سوائے بھاری رقوم کے زیاں کے کوئی اور نقصان نظر نہیں آتا لیکن ہیلتھ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین چیخ رہے ہیں کہ یہ ریلیاں جلسے وغیرہ کورونا وائرس کے پھیلائو میں اضافے کا سبب بنیں گے اور یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ عوام کے ہجوم سے کورونا میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ حیرت ہے کہ عوام کی خدمت کی دعویدار یہ سیاسی جماعتیں محض اپنی تشہیرکے لیے عوام کی جانوں سے کھیل رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ابھی اپوزیشن اتحاد کو جلسوں ریلیوں کا خیال کیوں آیا؟ ہمارے ملک میں بے روزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ہماری اپوزیشن جماعتیں اربوں روپے میں کھیل رہی ہیں اگر بے روزگاروں کو چار چھ گھنٹوں میں صرف مجمع کرنے اور نعرے لگانے کے ہزار دو ہزار مل جاتے ہیں توکیا برا ہے۔
بلاشبہ بے روزگاروں کو ایک بھاری رقم دے کر ہزاروں "کارکنوں " کو جمع کرلیا جاتا ہے تو سوائے بھاری رقم کے اورکسی نقصان کا کوئی خدشہ نہیں لیکن خوف یہ ہے کہ ان کامیاب ریلیوں اور جلسوں کے نتیجے میں اگرکورونا پھیلتا ہے تو غریب عوام کا نقصان تو ہوگا، سیٹھوں ساہوکاروں کا کیا نقصان ہوگا۔ آج ساری دنیا میں عوام کو ہجوم کرنے سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے تاکہ ایک جگہ زیادہ لوگ جمع ہو کر کورونا کو دعوت دینے کا سبب نہ بنیں۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ عوام کو ایلیٹ ہمیشہ استعمال کرتی آئی ہے، لیکن موجودہ سنگین صورتحال میں ایلیٹ نے غریب عوام کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جس طرح موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے یہ اقدام اس قدر افسوسناک ہے کہ نہ صرف حکومت کو بلکہ عوام کو بھی اس حرکت کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ میڈیا میں اربوں روپوں کی لوٹ مارکی جو کہانیاں چلتی رہی ہیں وہ اربوں روپیہ کہاں گیا؟ یہ وہ سادہ سا سوال ہے، جس کا جواب عوام چاہتے ہیں۔
اگر ہمارے احتسابی ادارے فعال ہوتے تو آج جو دولت سیاسی مفادات کی خاطر لٹائی جا رہی ہے، اس قدر بھاری رقوم ترقیاتی کاموں پر لگا کر عوام کے تباہ حال مستقبل کو بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ کرائے کے کارکن لا کر جو ریلیاں، جو جلسے کیے جا رہے ہیں، اس سے ایک دن کے شو کے علاوہ کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں احتسابی ادارے بھی ہیں، کیا وہ قومی دولت کی بربادی کا نوٹس لے رہے ہیں؟