Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mansooba Bandi Ke Faiday

Mansooba Bandi Ke Faiday

ملک میں بے کاری کا اژدہا سرسرا رہا ہے لوگ جو کام مل گیا فوری پکڑ رہے ہیں ایسے بسوں میں بیٹھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اور نعرے بازی کرنا ایسا کام ہے کہ بے کاروں کے تو وارے نیارے ہوگئے ہیں۔

شہر میں ہر طرف انھی سیاسی کارکنوں کا راج ہے پہلے دس پندرہ رہنما بھی ان جلسوں، جلوسوں میں موجود رہتے تھے لیکن برا ہو نیب کا اس نے مختلف الزامات کے تحت جن میں منی لانڈرنگ سرفہرست ہے ان رہنماؤں کو گرفتار کر رہی ہے جس کی وجہ سے جلسوں جلوسوں میں قیادت کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ بھلا کرے بعض سیاستدانوں کا، وہ دستیاب ہیں اور دن بھر میں کئی جلسوں ہی نہیں پریس کانفرنسوں کو بھگتا رہے ہیں۔

کرائے کے سامعین کا عالم یہ ہے کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں، سو "عوام" کی کمی کا کوئی گلہ شکوہ نہیں یوں تمام جلسے جلوس پریس کانفرنسیں کامیاب جا رہے ہیں۔ ادھر پریس کے کیمرہ مینوں کا بھی بھلا ہو رہا ہے کہ انھیں ایک کو اکیس دکھانے کے فن سے فائدہ ہو رہا ہے اور جلسوں کے منتظمین ان کے ممنون ہو رہے ہیں۔ اسے ہم غریب اور بے روزگار انسانوں کی بھلائی اور کمائی کا موسم کہہ کر اس کی تعریف کر رہے ہیں اور جلسے جلوسوں کی اس کامیابی میں بالواسطہ شریک ہو کر ثواب دارین کما رہے ہیں۔

ہمارا یہ کالم چھپنے تک سینیٹ کا وہ اجلاس ہو چکا ہوگا، جو اس لیے متنازعہ بن گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس اجلاس میں "خفیہ" رائے دہی کے ذریعے انتخاب کرانا چاہتی ہے اور حکمران جماعت تحریک انصاف شو آف ہینڈ کے ذریعے دھڑلے سے انتخابات کروا کر فریق مخالف کو بے پردہ کرنا چاہتی ہے۔

سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں پردہ داری کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وزیر اعظم کے حمایتی اس مہم کو بے پردہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی اہلکار آئین میں ترامیم لانے کی تیاری کر رہے ہیں ادھر ہماری اپوزیشن ان مبینہ ترامیم کو ناکام بنانے کی تیاری کر رہی ہے دیکھیے کیا ہوتا ہے؟

دنیا کو چھوڑیے پاکستان میں بے شمار قومی اور علاقائی الیکشن ہوچکے ہیں لیکن ایسا الیکشن کبھی نہیں ہوا جس میں اتنی سخت ضد رہی ہو۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم ایماندارانہ الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں جب کہ ہماری اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے۔ اس اجتماع ضدین کی وجہ سے ملک میں ایک سنگین صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی پیدائش سے ہی پردہ دار رہی ہیں جب کہ اس کے فریق مخالف یعنی تحریک انصاف ہر کام ڈنکے کی چوٹ پر کرنے کے عادی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پیدائش صنعتی گھرانے میں ہوئی اور تحریک انصاف نے کھیل یعنی کرکٹ کے کھیل کے میدان میں جنم لیا ہے۔

مسلم لیگ ہر کام پردے میں رہ کر کرنا چاہتی ہے اور تحریک انصاف اپنے رہنما عمران خان کی طرح ڈنکے کی چوٹ پر کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ "پیار کیا کوئی چوری نہیں کی"۔

اس وقت صبح کے چھ بجے ہیں ابھی اندھیرا ہے، جب ہم نے کالم لکھنا شروع کیا اس وقت رات کے ساڑھے چار بج رہے تھے، قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ بیدری لکھنے کے لیے رات کا وقت ہی کیوں پسند کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں بہت سویرے جاگنے کی بیماری ہے بغیر کسی کام کے اندھیرے سے اجالے تک جاگنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے بڑی سوچ بچارکے بعد ہم نے طے کیا کہ اندھیرے سے اجالے تک آنے کا یہ سفر طے کیا جائے تاکہ نیند بھی خراب نہ ہو اور کام بھی ہوجائے "رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔"

سیاست میں ہر فریق کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ الیکشن "کسی نہ کسی" طرح جیت جائے اگر حکومت مخالف کوئی بھی جماعت اس "کسی نہ کسی طرح" کے فارمولے پر عمل پیرا ہے تو اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اخباری اطلاع کے مطابق ایک ووٹ کی قیمت یا بولی چارکروڑ تک پہنچ گئی ہے جس طرح الیکشن میں اتحادی بن کر الیکشن کی تیاری ہمارے سیاستدان کرتے ہیں اسی طرح ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری سیاسی جماعتیں متحد ہو کر ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لیں تو کروڑوں نہیں اربوں کی آمدنی ہو جائے گی جو کئی نئی سیاسی جماعتیں بنانے میں کام آئے گی۔ پرانی روپے پیسے کی سیاست سے سڑاند کی بدبو آ رہی ہے اسے کورونا کے مریض کی طرح دفنا کرنئی جاندار روایت بنا لی جائے تاکہ حقیقی معنوں میں ملکی ترقی ہو سکے۔