Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Markaz Aur Soobe Ke Darmiyan

Markaz Aur Soobe Ke Darmiyan

اس ملک کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران طبقات کبھی نہ متحد رہے، نہ ان کی پالیسیوں میں ہم آہنگی رہی، جس کا خمیازہ اس ملک کے غریب عوام بھگتتے رہے۔ 10 سال کے شاہانہ دور کے بعد ایک مڈل کلاسر حکومت برسر اقتدار آئی تو اشرافیہ سیاسی جوڑ توڑ میں الجھ گئی۔ اس ملک ہی کا نہیں ساری دنیا کا مسئلہ کورونا وائرس ہے۔

جو سیاستدان کورونا وائرس کے نقصانات کو سمجھتے ہیں وہ بڑے محتاط طریقے سے قدم اٹھا رہے ہیں اور قومی مسائل پر بھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ آج کا سب سے بڑا مسئلہ اس وباء سے بچنا ہے، ہماری مرکزی حکومت اس حوالے سے محتاط نظر نہیں آتی لیکن اس کی عدم محتاطی میں سیاسی مفاد کا دخل نظر نہیں آتاجب کہ ہماری صوبائی حکومت بوجوہ سخت اقدامات کی حامی نظر آتی ہے۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں دوڈھائی کروڑ کے لگ بھگ انسان رہتے ہیں، اس تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاستدان ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر سیاست کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا بلکہ ہر مسئلے پر ٹکراؤ کی پالیسی حاوی نظر آرہی ہے، مرکز اور صوبے میں دو متضاد حکومتیں قائم ہیں۔

مرکزی حکومت عوام کی معاشی بدحالی کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے جب کہ حکومت سندھ کورونا کی وبا کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو دونوں ہی طبقہ فکر اپنی اپنی سیاست میں "مخلص" نظر آتے ہیں لیکن اس اخلاص میں نیت صاف ہوتی تو تضادات کو بڑھانے کے بجائے اتحاد کی راہیں تلاش کرکے یکساں پالیسی پر چلنے کی کوشش کرسکتی ہیں لیکن ایسا اس لیے نہیں ہو پا رہا کہ سیاستدان قومی مفاد کے بجائے ذاتی اور جماعتی مفادات کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔

مسئلہ ہے کورونا کا۔ بلاشبہ کورونا اس وقت دنیا کا ہلاکت خیز مسئلہ بن گیا ہے۔ مرکزی حکومت کورونا کی خطرناکی سے ناواقف نہیں لیکن وہ اس حوالے سے سخت اور بے لچک پالیسی کو نقصان دہ سمجھتی ہے اور محتاط انداز میں قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت غریب عوام کی روٹی، روزگار کو اولیت دے رہی ہے جب کہ صوبائی حکومت کورونا کے مسئلے کر مرکزی مسئلہ سمجھتی ہے۔ کورونا کے حوالے سے کوئی دو رائے ہیں ہو سکتیں لیکن جب مسئلہ روٹی روزگار کا آتا ہے تو حکومت کورونا کی تباہ کاریوں سے ناواقف نہیں لیکن وہ عوام کی معاشی بدحالی کو نظرانداز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔

حکومت لاک ڈاؤن کے ساتھ عوام کی روٹی روزگار کو بھی بڑی اہمیت دے رہے ہیں جس کا اندازہ اس پالیسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے مخالف نہیں لیکن اس کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن اتنا سخت نہ ہو کہ عوام روٹی روزگار سے محروم ہو جائیں جب کہ ہماری صوبائی حکومت کے سربراہ لاک ڈاؤن میں اور سختی کرنے کے حامی ہیں۔ تاکہ کورونا زیادہ پھیل نہ پائے۔ کورونا کا مسئلہ صرف پاکستان ہی میں مرکزی اہمیت کا حامل نہیں بلکہ ساری دنیا کا مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ بلکہ متنازع مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اور خطے کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔

سخت لاک ڈاؤن کا مطلب بھوک اور بے کاری ہوتا ہے۔ دنیا کے وہ ملک جن کی معاشی حالت بہتر ہے وہ سخت لاک ڈاؤن سے پریشان نہیں اور میانہ روی اختیار کرنے کے حامی ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جو مرکزی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان ایک مشکل مسئلہ بن گیا ہے۔ عمران حکومت سندھ سمیت چاروں صوبوں میں عوام کی مالی مدد کرکے انھیں بھوک اور بے کاری سے بچانا چاہ رہی ہے جس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی اسی طرح سندھ حکومت کورونا کے مسئلے کو مرکزی حیثیت دے رہی ہے وہ بھی غلط نہیں۔ جب دونوں طاقتیں اپنے اپنے موقف میں درست ہیں تو پھر غلط کون ہے غلطی کون کر رہا ہے۔

جب دونوں ہی یعنی مرکزی قیادت اور صوبائی قیادت اپنی اپنی جگہ درست ہیں تو پھر مسئلہ کیا رہتا ہے؟ بات یہ نہیں ہے بات یہ ہے کہ دونوں کے سیاسی مفادات الگ الگ ہیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتے ہیں جس کی وجہ لڑائی کا ماحول بن جاتا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام کورونا کی زرد میں ہیں ہر شخص اس وبا سے خوفزدہ ہے کورونا کی تباہ کاریوں کا عالم یہ ہے کہ اب ایک ہی دن میں 16 افراد ہلاک ہو رہے ہیں، متاثرین کی کل تعداد اب نو ہزار کے قریب ہوگئی ہے، اس عذاب کی موجودگی میں مرکز اور صوبے کے درمیان یہ چقپلش انتہائی تشویشناک ہے۔