اہل فکر اکثر کہتے ہیں انسان عظیم ہے۔ بلاشبہ انسان عظیم ہے کیونکہ ساری معلوم تاریخ میں انسان ہی وہ جاندار ہے جس کے پاس عقل ہے اور وہ اس کے استعمال کو بھی جانتا ہے۔ ویسے تو دنیا اتنی وسیع ہے کہ انسانی ذہن اس کی وسعت کا اندازہ نہیں لگا سکتا ایسی وسیع و عریض دنیا میں کیا کیا مظاہر قدرت نہیں ہو سکتے جن کا ہم کو علم تک نہیں ہوگا۔
آج ایک خبر نظر سے گزری کہ ہمارے علما نے ایک ضابطہ اخلاق منظور کیا ہے اس ضابطہ اخلاق کے 20 نکات ہیں جن میں ان تمام افعال کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے جو مسلکوں کے درمیان اختلافات کا باعث بنتے ہیں۔ عقائد کے حوالے سے یہ ایک مثبت کوشش کہلا سکتی ہے کیونکہ مسلم معاشرہ اتنی تقسیم کا شکار ہے کہ اسے شمار کرنا مشکل ہے۔ جو علما اس حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں وہ لائق مبارکباد ہیں۔ دنیا بھر کے انسانوں کا عمومی عقیدہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور یہ عقیدہ عقلیت کے مطابق بھی ہے۔
دنیا میں مذاہب کی تاریخ چند ہزار سال پر مشتمل ہے اور دنیا کے وجود میں آنے کا واقعہ بھی ہزاروں سال پر محیط نہیں لاکھوں سال پر محیط ہے ان لاکھوں سالوں میں دنیا کس کس صورتحال سے گزری اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کرہ ارض پر وجود میں آنے والی تہذیب مشکل سے چند ہزار سال پر مشتمل ہے باقی لاکھوں بلکہ کروڑوں سال کا عرصہ کیا ہوا۔
ہم جن مسلکی سوالات کا جائزہ لے رہے ہیں ان کا تعلق بھی ہزار دو ہزار سال ہی سے ہے۔ اس ہزار دو ہزار سالہ مسلکی تاریخ میں ایسے المیے پیش آتے رہے کہ ان پر انسان کا سر نگوں رہتا ہے جب کہ دنیا میں انسانی تاریخ کا کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا اسرار ہے جس کی جانکاری انسانی ذہن سے ماوریٰ ہے۔
ہم دراصل اس ضابطہ اخلاق پر غور کر رہے تھے جس کا ذکر ہمارے محترم علما کرام نے کیا ہے اور جنھیں 20نکات میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دنیا کی آبادی 8-7 ارب بتائی جاتی ہے یہ 8-7 ارب انسان اتنے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں کہ جن کا شمار مشکل ہے یہ مسلکی مسائل اگر چند ہزار سال پر مشتمل بھی ہیں تو اس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ہم جس موضوع پر بات کر رہے ہیں وہ مسلکی ہم آہنگی ہے جس کا تعلق صرف ایک مذہب سے ہے اس ایک مذہبی ایک مسلکی مسئلے کو گزرے چودہ سو سال ہو رہے ہیں جب کہ دنیا کو وجود میں آنے کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بلاشبہ مسلکی اتحاد کی یہ کوشش قابل تعریف ہے لیکن کیا یہ مسلکی اتحاد کی کوشش نئی ہے؟ کیا اس سے پہلے مسلکی اتحاد کی کوششیں نہیں کی گئیں؟ اگر کی گئیں تو ان کا نتیجہ کیا نکلا۔ کیا ہم ایسا تو نہیں کر رہے کہ سانپ کو دم سے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
دنیا میں لاتعداد عقائد ہیں زمانہ قدیم میں جس مسئلے کا حل دریافت نہیں ہو سکتا تھا ایسے مسئلہ کو جنتر منتر کے ماہرین کے حوالے کیا جاتا تھا۔ لیکن دنیا اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ مشکل سے مشکل مسائل کا حل بھی علم سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈھونڈا جا رہا ہے جس کی وجہ عقائد و نظریات کی اہمیت کم ہو گئی ہے لیکن ہزاروں سال کی گہرائی میں موجود مسائل کا حل اس لیے مشکل ہے کہ ان کے آگے مسائل دیوار بن کر حائل ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والی چند صدیوں میں مشکل سے مشکل مسئلے کا حل علم سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈھونڈ لیا جائے گا اور جنتر منتر کالی کلنتر والے شہروں کے میوزیم میں دیکھے جائیں گے۔ لیکن اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ مسلکی اختلافات ہزاروں سال گزرنے کے باوجود حل نہ ہو سکے۔
دنیا میں ایک یا دو ہی مذہب نہیں ہیں بلکہ کئی کئی مسلک اپنے اپنے طریقوں کے حوالے سے موجود ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ان عقائدی مسائل کو جو سیکڑوں سال سے انسانوں کا "اثاثہ" بنے ہوئے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فریم ورک میں دیکھا جائے؟ مغرب اس حوالے سے بہت ساری جونکوں سے نجات حاصل کرچکا ہے لیکن مشرق میں تحقیق کو عقائد سے اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ تحقیق اگر ہمارے "نظریات" سے متصادم ہو تو محقق قابل گردن زدنی قرار پاتا ہے۔
محققین کی تحقیق اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے جب وہ سزا کے خوف سے آزاد ہو۔ پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں آسیب سے چھٹکارا دلانے کے لیے آزار میں مبتلا شخص کو ایسی اذیتیں دی جاتی ہیں جس کے تصور ہی سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ترقی یافتہ ملک ان "بیماریوں " سے نجات حاصل کر رہے ہیں لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ اہل ہنر بھی وقت ضرورت ان عقائد کی کوٹھڑیوں میں بند ہو جاتے ہیں جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہیں آپ نے میڈیا میں عالموں کاملوں کے خوف ناک جنتر منتر کی کہانیاں پڑھی ہوں گی جن کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔
معاشرے اور سائنس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں "اہل ہنر" اس کی راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں لیکن جدید دریافت ان کانٹوں کو اپنے راستے سے پھولوں کی طرح نکال دے گی ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز مسلکی مسائل سے کیا تھا۔ مسلکی مسائل ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں جس پر بہت سارا خون بہہ چکا ہے ہمارے علما اب بڑے ہوشیار ہو چکے ہیں امید ہے کہ وہ اپنے 20 نکاتی پروگرام میں مسلکی مسائل کا ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ جدید علوم کے ماہرین ان کی مدد کر سکتے ہیں تو انھیں اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔