ہر ملک میں ایسی عوام دشمن طاقتیں موجود ہوتی ہیں، جن کا کام صرف اور صرف عوام کی کھال کھینچنا ہوتا ہے، طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ غریب عوام کی کھال کھینچی جائے ہمارے ملک میں بھی ایسی طاقتیں موجود ہیں جن میں تاجر طبقہ زیادہ فعال ہے۔
عوام کا حال ویسے ہی برا ہے اس پر یہ عوام دشمن تاجر طبقہ مستقل عوام کی کھال کھینچ رہا ہے اور ذریعہ ہے مہنگائی۔ 72سالوں میں وہ مہنگائی نہیں دیکھی گئی جو آج دیکھی جا رہی ہے غریب عوام خوش تھے کہ انھیں بھی مرغی کھانے کی سہولت مل رہی ہے یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ غریب طبقہ مرغی کھانے کے قابل ہوا ہے۔ مگر اسے کیا کہا جائے کہ مرغی فروش طبقے نے ایک بار پھر غریب عوام سے مرغی کو چھین لیا ہے یعنی قیمتیں اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ غریب مرغی کے نام سے دور بھاگنے لگا ہے یعنی جو مرغی 170 روپے کلو مل رہی تھی وہ اب تین سو روپے کلو سے بڑھ گئی ہے۔
دنیا کے دوسرے ملکوں میں قیمتیں اتنی ہوتی ہیں کہ عام آدمی اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کرسکتا ہے اور منافع کی ایک رضاکارانہ حد مقرر ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک کا تاجر طبقہ جس میں مرغی فروش بھی شامل ہیں اس کی ہوس کی کوئی حد نہیں مرغی اپنے ملک کی پیداوار ہے اس کی قیمت کا تعین چکن فارمز کے مالکان کرتے ہیں وہ بھی ایسے ماہرانہ طریقے سے کرتے ہیں کہ بے چارے عوام ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
مرغی کوئی امپورٹ آئٹم نہیں ہے بلکہ ملکی پیداوارکا حصہ ہے، اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فارم کے مالکان کو قیمتیں بڑھانے کے لیے کسی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ٹیلیفون پر قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ عوام بے چارے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ صبح انھوں نے جو مرغی ڈیڑھ سو روپے کلو خریدی تھی شام میں اس کی قیمت تین سو روپے کلو ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے مرغی ہمیشہ امرا کا کچن آئٹم رہا ہے۔ اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ اس سال مرغی کئی ماہ تک دو ڈھائی سو روپے کلو رہی اور عام آدمی بھی مرغی کا مزہ چکھنے کے قابل ہوا۔ ورنہ عام آدمی کو انتظار کرنا ہوتا ہے کہ کب مرغیوں میں بیماری پھیلے اور وہ مرغی کھانے کے قابل ہوں جب کہ خوشحال طبقہ سارا سال مرغی کھاتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم تقریباً ہر روز مہنگائی کے خلاف تاجر برادری کو وارننگ دے رہے ہیں لیکن تاجر طبقہ ریڑھی والے سے لے کر آڑھت والے تک کان اور آنکھ بند کیے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ مرغی کی بے جواز مہنگائی بھی اسی لوٹ مار کا ایک حصہ ہے۔
میں اشیا خورو نوش میں مرغی کو اپنے قلم پر اس لیے لایا کہ غریب آدمی کو یہ احساس ہو کہ وہ بھی مرغی کھا سکتا ہے اور مرغی اس کی خوراک کا ایک حصہ ہونا چاہیے اب اس سائیکی کو ختم ہونا چاہیے کہ مرغی صرف امیر طبقہ ہی کھا سکتا ہے۔
مرغی کے علاوہ بے شمار کچن آئٹم ہیں جن کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی گئی ہیں، مثلاً گائے کا گوشت جو عوام کی ایک مرغوب غذا ہے چھ سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے ہر ملک میں یا تو تاجر خود اپنی اشیا کی قیمتیں عوام کی قوت خرید کے مطابق رکھتے ہیں یا حکومت ایسی قیمتیں مقرر کرتی ہے جو عوام کی قوت خرید کے مطابق ہوں۔
سبزی اور دال عام غریب آدمی کی لازمی غذا ہے لیکن ان کی قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کردیا گیا ہے۔ پالک عوام کی مرغوب غذا ہے اور اتنی پیدا ہوتی ہے کہ تاجر اس کی قیمت ازخود پندرہ بیس روپے کلو مقررکرتے ہیں اور یہ قیمت ہمیشہ برقرار رہتی ہے لیکن اس ظلم کو کیا نام دیں کہ دس پندرہ کلو ملنے والی پالک اب 80 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے اسی طرح دیگر سبزیوں کا حال ہے اس کا آلٹرنیٹ دالیں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ دو سو سے تین سو فی کلو کے لگ بھگ بیچی جا رہی ہیں۔
ہم نے بار بار پرائس کنٹرول کے محکمے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ایسا محکمہ ہے جسے اپنے بھتے سے غرض ہوتی ہے قیمتیں خواہ آسمان پر کیوں نہ پہنچیں سرکار ان غیر اہم اور غریبوں کی غذا پر توجہ نہیں دیتی نتیجہ یہ کہ عام آدمی کی غذا کے ہر آئٹم کی قیمتیں غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں نہ وہ بڑا گوشت خرید سکتا ہے نہ دال خرید سکتا ہے نہ سبزی، تو پھر وہ بے چارا غریب کھائے توکیا کھائے؟
مارکیٹوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری میں پرائس کنٹرول کے محکمے کے علاوہ بلدیاتی ادارے بھی ہاتھ بٹاتے ہیں لیکن ہماری سندھ سرکار نے بلدیاتی اداروں کو معطل کر رکھا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوامی ضروریات کو پورا کرنے والے بلدیاتی نظام کوکیوں فارغ کردیا گیا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں لگ بھگ تین کروڑ انسان بستے ہیں۔
اس میگا سٹی کو بلدیاتی نظام سے محروم کرکے عوام کو بے آسرا کردیا گیا ہے، تین کروڑ کی آبادی کے اس شہر کو بلدیاتی نظام سے محروم کرکے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ہری گھاس چرنے کے لیے چھوڑنا ایسی وڈیرہ شاہی سازش ہے جس کا شکار اس شہر کے تین کروڑ کے لگ بھگ انسان ہو رہے ہیں۔ ساری دنیا میں بلدیاتی ادارے بہت فعال ہوتے ہیں چونکہ یہ ادارے عوام کے منتخب ہوتے ہیں لہٰذا وہ معاشرے میں اہم ذمے داریاں ادا کرتے ہیں اور عوام اپنی ضرورتوں کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں۔
عمران خان آج ملک کے وزیر اعظم ہیں اور بقول ان کے وہ غریب اور مظلوم طبقات کی دادرسی کے لیے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلدیاتی ادارں کو معطل کرکے رکھنے کا کیا مطلب ہے ہماری عدلیہ کو اس ناانصافی بلکہ ظلم کے خلاف ایکشن لے کر بلاتاخیر بلدیاتی الیکشن کرانا چاہیے تاکہ منتخب نمایندے بلدیاتی امور کو چلانے کے قابل ہوسکیں۔