پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اشرافیائی ملک ہے، اور اشرافیہ نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام کب تک اشرافیہ کے غلام سے رہیں گے۔ اشرافیہ آج کل اقتدار سے باہر ہے اور اس "ظلم" کے خلاف اشرافیہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر شور مچا رہی ہے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور ناانصافی ہوئی جس کا ازالہ ضروری ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ "پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔" اشرافیہ سے عوام کیا کٹ گئے ہیں کہ اشرافیہ کی ٹانگیں اور ناک دونوں کٹ گئے ہیں۔
ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ ہر علاقے سے کچھ سپورٹر ہائرکر لیے جاتے تھے اور یہ سپورٹر زبان قومیت اور ذات برادری کے حوالے سے عوام تک رسائی حاصل کر کے اور علاقائی چوہدریوں کو خرید کر انتخابات میں ووٹ حاصل کر لیتے تھے اور بڑے ٹھاٹھ سے حکومت کرتے تھے لیکن برا ہو عمران خان کا کہ اس نے اشرافیہ کے اربوں روپوں کی کرپشن کا بھانڈا اس طرح پھوڑا کہ عوام اشرافیہ سے بدظن ہی نہیں ہوئے بلکہ متنفر بھی ہو گئے۔ ماضی میں اپنے حواریوں کے ذریعے عوام کو گھیر کر بڑے بڑے جلسے جلوس کروا لیتے تھے اور اس بھیڑ بھاڑ کو اپنی طاقت بتاتے تھے اور اسی مصنوعی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض رہتے تھے اب چونکہ عوام اشرافیہ سے بدظن ہی نہیں متنفر بھی ہو گئے ہیں اس لیے عوامی مقبولیت کا یہ فریب ختم ہو گیا ہے اور حکومت کو بلیک میل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
سب طرف سے مایوس اشرافیہ نے ایک موثر سازش یہ شروع کی ہے کہ عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کے لیے اپنے حلقہ اثر سے کام لیتے ہوئے ملک بھر میں مصنوعی مہنگائی کا موثر تیر چلایا ہے، ظاہر ہے عام غریب آدمی اس کمر توڑ مہنگائی سے سخت پریشان ہے اور فطری طور پر حکومت سے ناراض ہو رہا ہے۔ عوام کی ناراضگی کو پکا کرنے کے لیے مہنگائی کی ذمے داری حکومت پر ڈال کر عوام کو حکومت سے بدظن کرنے اور ہلہ گلہ کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مہنگائی سمیت جو مسائل سر اٹھا رہے ہیں اس میں حکومت کی نااہلی کا بھی دخل ہے لیکن اصل وجہ ماضی کی دس سالہ حکومتوں کے دوران لیے گئے 24 ہزار ارب قرضوں کا بھی بڑا دخل ہے لیکن ہماری حکومت کی ایک بڑی نااہلی یہ ہے کہ اس کا میڈیا مسلسل انتہائی نکما کمزور اور نااہل ہے وہ ماضی کی حکومتوں کی نا اہلیوں کو عوام کے سامنے موثر طریقے سے پہنچانے میں ناکام رہا ہے جس کا لازمی نتیجہ حکومت کی نا اہلی کی شکل میں عوام کے سامنے آ رہا ہے۔ عوام حکومت سے بدظن اور مایوس ہو رہے ہیں، دوسری وجہ حکومت کے اندر کا خلفشار اور اتحادیوں کی ناراضگی ہے۔
موجودہ پی ٹی آئی حکومت اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہی ہے، اتحادیوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ حکومت انھیں "ترقیاتی فنڈ" نہیں دے رہی ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قابو میں رکھنے کے لیے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے دیے جاتے تھے جو کہ عوام کی ترقی کے بجائے فنڈ حاصل کرنے والوں کی ترقی پر خرچ ہو جاتے تھے۔ یہ سلسلہ ہماری نام نہاد جمہوریت میں جاری رہا ہے۔
ہماری جمہوریت عملاً اشرافیہ کی جاگیر بنی ہوئی ہے۔ صرف چند خاندان ہیں جو مستقل سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں اور ارب پتی بنے ہوئے ہیں ترقیاتی کاموں کے نام پر اربوں کے فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں اس کے علاوہ کرپشن اشرافیہ کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پچھلے 15-16 ماہ سے ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے احتساب کے نام پر جو مذاق کر رہے ہیں اس کا اشرافیہ پر بال برابر اثر نہیں ہوا۔ یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی اتنی بڑی ناکامی ہے کہ اشرافیہ اس ناکامی سے اور زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور زیادہ نڈر ہو کر حکومت کو وارننگ دے رہی ہے کہ وہ حکومت چھوڑ دے۔ ہماری اشرافیہ حکومت گرانے کی بات اس طرح کرتی ہے جیسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ناجائز تعمیرات گرانے کی بات کرتی ہے، یہ صورتحال حکومت کے لیے الارمنگ ہے۔
جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے بتایا گیا ہے لیکن ہماری جمہوریت کا حال یہ ہے کہ اشرافیہ کی حکومت، اشرافیہ کے لیے، اشرافیہ کے ذریعے بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں وزیر اعظم ہمیشہ اشرافیہ کا ہوتا ہے جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں وزیر اعظم کا تعلق نچلے طبقات سے ہوتا ہے۔ آج کل بھارت کا وزیر اعظم ایک ڈھابے پر کام کرنے والا چائے والا ہے۔ نریندر مودی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ نچلے طبقات کے ساتھ گزرا ہے۔ مودی کے وزیر اعظم بننے سے بھارت کی وزارت عظمیٰ کو اعزاز ملا ہے کہ آج ایک نچلے طبقے کا فرد دنیا کے دوسرے بڑے ملک کا وزیر اعظم بنا ہوا ہے۔ یہ اعزاز وزیر اعظم کو نہیں بلکہ وزارت عظمیٰ کو ملا ہے۔
پاکستان میں 72 سال سے اشرافیہ کا جو ناٹک جاری ہے اسے اب ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ عمران خان کا تعلق ایک مڈل کلاس سے ہے وہ بھی نیم دروں نیم بروں ہے ہماری وزارت عظمیٰ میں یہ تبدیلی کہ 72 سال بعد مڈل کلاس کا ایک شخص وزیر اعظم بنا ہے، ایک اچھی اور مثبت علامت ہے لیکن اب دوبارہ عوام کے سروں پر اشرافیہ کا وزیر اعظم مسلط نہیں ہونا چاہیے بلکہ اب ملک کا وزیر اعظم ورکنگ کلاس یعنی مزدوروں کسانوں اور غریب طبقات سے ہونا چاہیے کیونکہ انھیں طبقات کی اکثریت ہے اور اکثریت کا نمایندہ ہی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔