اچھی بری غلط صحیح نام نہاد جمہوریت کی گاڑی ایک مخصوص ٹریک پر چلتی رہی لیکن اب بعض طاقتیں شوق اقتدار میں قومی گاڑی کو ایک ایسے ٹریک پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔
افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ روایتی سیاستدان اس خطرناک ٹریک کے مضمرات کو سمجھے بغیر محض شوق اقتدار میں اس مذہبی ٹریک پر جانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ضرورت کے وقت پٹری بدلنے کا کوئی اسٹیشن ہی موجود نہیں ہوتا۔ جس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ ٹرینوں کے درمیان خطرناک تصادم ہو۔
مولانا فضل الرحمن ایک سینئر مذہبی رہنما ہیں اور اسی حیثیت سے پاکستان کے اندر اور باہر پہچانے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے مولانا شوق اقتدار میں اپنی پٹری چھوڑ کر سیاست کی ایک ایسی پٹری پر شوقیہ آتے رہے ہیں کہ حضرت کا ذہن اب آہستہ آہستہ سیاست کے ٹریک پر آگیا ہے۔
سیاست کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن بری اور خطرناک ترین بات یہ ہے کہ سیاست کٹر مذہبی کارکنوں کی طاقت پر کرنا اس قدر خطرناک ہے کہ قدم قدم پر تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے اور جس ٹریک پر مذہبی کارکنوں کی گاڑی چل رہی ہو وہ اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ خون خرابے کا خدشہ ہر وقت سر پر سوار رہتا ہے۔ سیاست میں رکھ رکھاؤ، صبر و برداشت کا کلچر عام ہوتا ہے اگرچہ چھوٹے موٹے اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن بڑے تصادم بورژوا سیاست کا حصہ نہیں ہوتے جب کہ مذہبی سیاست میں عقائد کی برتری ہوتی ہے اور عقائد میں ایڈجسٹمنٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی وہاں نیچے سے اوپر تک ایک بے لچک کلچر ہوتا ہے۔
مذہبی سیاست میں عقائد کی برتری ہوتی ہے اور کارکن ایک بے لچک عقائدی پالیسی کا اسیر ہوتا ہے، اگر کوئی بات مذہبی سیاست میں غلط کہی جاتی ہے تو وہ شروع سے آخر تک غلط ہوتی ہے۔ اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ مذہبی سیاست میں ہر بات حرف آخر ہوتی ہے اس میں ترمیم اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی مثلاً مذہبی سیاست میں سود حرام ہوتا ہے تو پھر سود حرام ہی ہوتا ہے اس میں کسی قسم کی ترمیم یا رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ہمارا پورا بینکنگ کا نظام سودی معیشت پر کھڑا ہے اور ملک کے ہر شہری کو خواہ وہ مذہبی کارکن ہو یا سیاسی کارکن صبح سے شام تک سودی معیشت سے سابقہ رہتا ہے اس کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے۔
اسی طرح پردے یا حجاب کا مسئلہ ہے، کارکن تو اس کی پابندی کر لیں گے لیکن عام لوگ یا ووٹر ان پابندیوں کا کس طرح مقابلہ کریں گے۔ الیکشن کمپین میں بھی یہی ہوگا کارکن تو کسی نہ کسی طرح شرعی پابندیاں کر لیں گے لیکن ووٹر ان پابندیوں پر کس طرح عملدرآمد کرے گا۔ مذہبی کارکن اسلامی اصولوں کی پابندی کرانا چاہے گا، عام کارکن کا مزاج لبرل ہے، وہ کس طرح اپنے ساری زندگی کے اصولوں کو چھوڑ دے گا۔ جھوٹ ہماری سیاست میں عام ہے اور جھوٹے وعدے سیاستدانوں کی پرانی عادت ہے جب کہ مذہب میں جھوٹے وعدوں اور جھوٹ کو بخشا نہیں جاتا جب کہ ہماری روایتی سیاست جھوٹ کے پاؤں پر ہی کھڑی ہوتی ہے، ان تضادات کو کیسے حل کیا جائے گا؟
ہم صدیوں سے جس مکس کلچر میں زندہ ہیں کٹر مذہبی اصولوں میں کیا اس لبرل مکس کلچر کا گزارہ ممکن ہے اگر ہم لبرل اور سخت مذہبی اصولوں کو ملاجلا کر چلانا چاہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ "نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے" والا معاملہ ہو جائے گا۔ مذہبی قوانین حتمی ہوتے ہیں اس میں ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور بورژوا سیاست میں قدم قدم پر ترمیم و تنسیخ کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ ایسے تضادات ہیں جو قدم قدم پر مذہبی جماعتوں کی راہ میں آئیں گے اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہبی کارکن اپنے اصولوں کا کٹر ہوتا ہے بورژوا سیاست میں قدم قدم پر کمپرومائز ہوتا ہے۔
ہمارے بے صبر سیاستدانوں کو اقتدار چاہیے اس سے کم پر وہ کہیں رکنے والے نظر نہیں آتے لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اقتدار کی خواہش سوائے ملک میں انارکی پیدا کرنے کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ اقتدار کی خواہش کرنے سے پہلے ماضی کے کارناموں پر ایک نظر ڈال لی جائے تو پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس پس منظر میں اقتدار کی خواہش بوالہوسی کے علاوہ کیا کہلا سکتی ہے۔ ایک نہ دو 72 سال سے یہ طبقہ اقتدار سے چمٹا ہوا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں پہلی اور دوسری بار مذہبی جماعتیں اقتدار کا رخ کر رہی ہیں اس بار چونکہ مذہبی جماعتیں آگے آگے ہیں تو ان خطرات سے عوام کو باخبر رکھنا ضروری ہے جو پیش آسکتے ہیں۔ ہم نے ابتدا میں مختصراً بتا دیا تھا کہ اگر کوئی مذہبی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو ملک کا کیا حشر ہوسکتا ہے۔ مولانا صاحب پر اس بار اقتدار کا بھوت سوار ہے اور اس آرزو کے پورے ہونے میں کیا انارکی کی قیمت ادا کی جا سکتی ہے؟
ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ مذہبی کارکن ڈسپلن کے سخت ہوتے ہیں اوپر سے جو حکم ملے اس کو بجا لانا کارکن دینی فرض سمجھتے ہیں۔ اور اس بجا لانے کا مطلب امرا کے اقتدار حاصل کرنے پر ہر حال میں اوپر کے حکم کو بجا لانے کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس حوالے سے عوام کے خدشات دورکرنے کے لیے ممکنہ مذہبی اقتدارکے ڈھانچے کو اگر عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے تو وہ خدشات دور ہو سکتے ہیں جو ملک میں ایک مذہبی جماعت کی قیادت میں بورژوا حکومت بننے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے مولانا سے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ کیا ان کے علم میں یہ بات ہے کہ ہماری سابقہ حکومتوں نے پچھلے دس سال میں کیا کارنامے انجام دیے ہیں ان کارناموں میں ایک کلاسک کارنامہ یہ ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے گمنام غریب لوگوں کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے ڈال دیے گئے، یہ کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ یہ کارنامے انجام دینے والے کون تھے؟
یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ مولانا کی ممکنہ حکومت میں وہی حضرات ہوں گے جو جعلی اکاؤنٹس اور کرپشن کی وجہ سے سارے زمانے میں مشہور ہیں۔ مولانا کی زندگی اور سیاست کورے کاغذ کی طرح ہے اس کورے کاغذ میں اربوں کی کرپشن اور جعلی اکاؤنٹس کی ملاوٹ ہوگئی تو بدنامی تو مولانا کی ہی ہو گی۔