Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Murghi Ki Qeemat Aur Awam

Murghi Ki Qeemat Aur Awam

سرمایہ دارانہ نظام کی گھٹی میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کم سے کم وقت میں حاصل کرنے کی خواہش ایک بیماری کی طرح پڑی ہوئی ہے، خواہ وہ بڑے تاجر ہوں یا چھوٹے کاروباری۔ مرغی کی تجارت ایک ایسا نفع بخش کاروبار ہے جس میں قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ عام بات ہے۔

رمضان کے آغاز سے ایک دن پہلے تک مرغی کی قیمت 220 روپے کلو گرام تھی، رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی 24 گھنٹوں کے اندر مرغی کی قیمت 400 روپے کلو ہوگئی، مرغی کا استعمال غریب طبقات میں ہمیشہ متروک رہا ہے اور اسے امرا کی غذا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ مرغی کی قیمت اچانک گر گئی اور مرغی 200 روپے فی کلوگرام میں فروخت ہونے لگی، قیمت کی اس ناقابل یقین کمی نے غریب طبقات کو یہ موقعہ فراہم کیا کہ وہ مرغی استعمال کریں، سو غریب کے کچن میں مرغی پکنے لگی۔

پھر یہ ہوا کہ مملکت خداداد پاکستان میں عوام کو مرغی فروشوں نے یہ تحفہ ماہ رمضان کی سوغات کے طور پردیا کہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی مرغی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا اور یہ اضافہ کراچی میں 400 روپے تک پہنچ گیا۔ یوں رمضان کے مقدس مہینے میں مرغی غریب طبقات کے لیے شجر ممنوعہ بن گئی۔ رمضان میں مرغی کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ طبقہ امرا کے لیے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی، اگر مرغی 400 روپے کلو کے بجائے 4000 روپے کلو بھی ہو جائے تو طبقہ امرا اس کا نوٹس نہیں لیتا۔

مرغی طبقہ امرا میں حسب معمول استعمال ہوتی رہتی ہے، یہاں سوال صرف مرغی کے استعمال میں کمی زیادتی کا نہیں بلکہ حکومت کی نااہلی کا ہے، بات صرف مرغی کی قیمتوں کی نہیں بلکہ تمام ضروری اشیا صرف کی مہنگائی کی ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں (مسلم) رمضان میں اشیا صرف کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی ہوتی ہے حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی کافر ملک بھارت میں کافر تاجر بھی رمضان میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں لیکن دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان کے تاجر رمضان کو کمائی کا مہینہ کہتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرغی کی غیر معمولی قیمتوں یعنی پاکستانی تاجروں کی لوٹ مار کی خبریں اخبارات میں چار کالمی سرخیوں کے ساتھ چھپتی رہی ہیں۔ ہمارے محترم وزیر اعظم کو ریاستی امور میں اتنا وقت نہیں ملتا ہوگا کہ وہ مرغی کی قیمتوں میں ناقابل یقین اضافے کی خبریں اخباروں میں پڑھ سکیں لیکن ان کے وزرا کرام کے پاس تو وقت ہوتا ہوگا پھر ہر حکومت میں ایک وزیر تجارت بھی ہوتا ہے، قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا متعلقہ وزیر کو نوٹس لینا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ وزیر محترم کو مرغی کھانے سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ مرغی کی قیمتوں کی طرف توجہ دے سکیں نتیجہ یہ کہ بے چارے عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔

ہر حکومت میں ایک عدد پرائس کنٹرول کا محکمہ ہوتا ہے جس کا کام اشیا صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے لیکن شاید وہ صرف کاغذوں میں ہی ہے۔ ہم نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ مرغی کبھی غریب کے مینو میں شامل رہتی ہی نہیں اگر وبائی بیماریوں کی وجہ سے مرغیاں مرنے لگتی ہیں اور مرغی کے فارمروں کو مرغی سستی کرنا پڑتی ہے تو غرباء کی قسمت جاگتی ہے اور وہ بھی امیر ہوکر مرغی کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ مرغیاں بیماری سے مرنے لگیں۔ امیر آدمی وبا کے دور میں مرغی کا استعمال ترک کرکے تیتر، بٹیر کھاتے ہیں۔

رمضان گزر گیا لیکن مرغی کی قیمتوں میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی اور یہی بات ہمارے کالم لکھنے کا سبب بن رہی ہے کہ عام طور پر فارم ہاؤسز والے رمضان ختم ہونے کے بعد مرغی کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوا اور بے چارے غریب طبقات آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر عوام آسمان کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے بازوؤں کی طرف دیکھیں تو چکن فارمر کی دال پتلی ہوجائے گی، پھر وہی سوال سامنے ہے کہ رمضان ختم ہو گیا لیکن مرغی کی قیمتیں آسمان سے زمین پر نہیں آئیں، پولٹری فارمرز خدا سے نہیں کورونا سے تو ڈریں جو ان سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔

ہم جناب عمران خان کی تعریف کرتے آ رہے ہیں کہ مڈل کلاس کا بندہ ہے، غریب عوام کا خیال کرے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ کرسی نے عمران خان کی توجہ غریب عوام کی طرف سے ہٹا لی ہے۔ عمران خان کی حمایت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے 72 سالوں سے عوام کے سروں پر سوار اشرافیہ سے اقتدار چھین کر اس ملک کے 22کروڑ عوام پر بہت بڑا احسان کیا ہے بھائی عمران ایسا کوئی کام ایسی کسی پالیسی پر عمل نہ کریں کہ اقتدار کی کرسی کو ندیدوں کی طرح دیکھنے والی اشرافیہ کو یہ موقع ملے کہ وہ عمران حکومت کا دھڑن تختہ کردیں، خدا وہ وقت نہ لائیے۔