دنیا میں جتنی قومیں آباد ہیں تقریباً اتنے ہی مذاہب موجود ہیں۔ اس طرح ہر مذہب کے ماننے والے بھی مختلف ہیں، مذاہب کا ایک سے زیادہ ہونا اتنی بری بات نہیں، بری بات یہ ہے کہ انسان مذہب کے حوالے سے ایک دوسرے سے نفرت کرتا ہے۔ نفرت کرنے کو بھی درگزر کردیا جائے تو خون خرابے پر اتر آتا ہے۔
مذاہب کے نام پر جنگیں لڑی گئیں اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح آج بھی جاری ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بھی کہا جاتا ہے، کیا اس جہل کے ساتھ انسان کو اشرف المخلوقات کہنا انسانی قدروں کے مطابق ہے؟ سوال یہ ہے کہ مذاہب بھی موجود ہیں، نفرتیں بھی موجود ہیں، قتل و غارت بھی موجود ہے۔ لیکن کیوں؟
انسان اشرف المخلوقات ہے، کیا انسان کو افضل کہا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ دوسری مخلوقات میں انسان کو افضل کہا جاسکتا ہے لیکن کیا ان ساری جہالتوں کی موجودگی میں انسان کی پیشانی پر افضل کا تمغہ مناسب ہے؟ سوالات بہت ہیں اور نازک بھی ہیں لیکن دنیا کے پہلے سے تباہ امن اور نفرتوں کی موجودگی میں سخت اور چبھتے ہوئے سوالات سے کوئی فائدہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو دنیا کے اکابرین کم ازکم مذہبی رواداری کو تو فروغ دیں۔
مذہبی رواداری کی کئی شکلیں ہیں مثلاً ہر مذہب میں کچھ بڑے دن یا عیدین آتے ہیں، کیا ایک مذہب کا ماننے والا دوسرے مذاہب کی عیدوں میں بطور مہمان شرکت نہیں کرسکتا؟ کیا اس طرح عقائد کو چھیڑے بغیر انسان ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتا۔ یہ اور اس سے زیادہ رواداری کے مظاہرے کیے جاسکتے ہیں لیکن ہر مذہب میں انتہا پسند موجود ہیں جو اس قسم کے احسن کاموں میں طرح طرح کے روڑے اٹکا سکتے ہیں۔
مجھے اس موقع پر پچاس ساٹھ برس پہلے کی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ سابق سلطنت بیدر حال ضلع بیدر میں ہماری راشن کی دکانیں تھیں جن میں ہندو ملازمین بھی کام کرتے تھے۔ ہندو خواتین پکوان بڑا لذیذ پکاتی تھیں۔ اگر پانی سے بھرے گھڑے کو کسی مسلمان کا ہاتھ لگ جائے تو گھڑے کا یا مٹکے کا سارا پانی پھینک دیا جاتا تھا۔ چھوت چھات کا ایک طرف یہ عالم ہوتا تھا اور دوسری طرف محبت اور رواداری کا عالم یہ ہوتا تھا کہ ہم ان ہندو دوستوں کے کچن میں بیٹھ کر کھانا پکاتے تھے۔ اس طریقہ زندگی سے نہ ہمارا دھرم بھرشٹ ہوتا تھا نہ ہمارے ہندو دوستوں کے دھرم پر کوئی آنچ آتی تھی۔ ہاں مذہبی رواداری میں اضافہ ضرور ہوتا تھا۔
آج ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اگر نہیں ہو رہی ہے تو مذاہب کے درمیان آہنگی پیدا کرنے میں نہیں ہو رہی ہے۔ کیا ہم اسے انسان کی بدقسمتی کہیں، مذاہب کے درمیان نفرتوں کو بڑھاوا دینے والے تو بہت ہیں بلکہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔
بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن تعصب اور نفرتوں کے حوالے بھی اس کی بڑائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اصل میں عام غریب اور سیدھے سادے لوگ کسی بھید بھاؤ میں نہیں پڑتے۔ نہ مذہبی منافرتوں کے چکر میں الجھتے ہیں، یہ سارا کھڑاک وہ مٹھی بھر لوگ کرتے ہیں جو یا تو مذہب کی نوعیت ہی سے بے خبر ہوتے ہیں یا پھر معمولی معمولی مالی فوائد کی خاطر عوام کو عوام سے مذہب کے نام پر لڑاتے رہتے ہیں۔ یہ عناصر ہر وقت ہر جگہ معمولی معمولی فوائد کی خاطر نفرتوں کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں۔ ورنہ عام آدمی جو دن بھر دال روٹی کے چکر میں الجھا رہتا ہے، اس کھیل سے دور ہی رہتا ہے۔
یہ عمل کوئی سادگی یا وقت گزاری کا مشغلہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دھن والے تاجر ہوتے ہیں جو اس الٹ پھیر میں لاکھوں کما لیتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس بدنما کھیل میں ہر حوالے سے غریب انسان ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس اور المیہ یہ ہے کہ ہر دو طرف ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود رہتے ہیں جو نفرتوں کی اس آگ کے نقصانات سے واقف ہوتے ہیں لیکن یہ ایلیمنٹ لڑنے جھگڑنے خون خرابوں سے خوفزدہ رہتا ہے۔ لیکن اس عوام دوست اور مذہبی تعصبات کے مخالف اکثریت کے پیچھے انھیں سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا یہی وہ مجبوری ہے جو انسان دوستوں کے آڑے آتی ہے۔
انسان جو کچھ دال روٹی مل جائے وہ کھا کر گھر میں منہ لپیٹے رہ سکتا ہے، اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا وہ کیا کرے کیا نہ کرے۔ لیکن انسانوں کے دشمن انسان کو انسان سے لڑانے والے جن کا پیشہ ہی نفرتیں پھیلانا ہوتا ہے معصوم لوگوں کو بہکا کر انسان سے شیطان بنا دیتے ہیں، یہ کوئی انفرادی یا ایک یا چند لوگوں کا کھیل نہیں ہے، یہ ایک مافیا ہے جس کے ہاتھ پاؤں اتنے لمبے چوڑے ہیں کہ وہ ایشیا میں ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ یورپ میں ہوتے ہیں تو پاؤں امریکا میں اس کے پھیلاؤ کا نتیجہ یہ ہے کہ اس مافیا کا ایک پیر پاکستان میں ہوتاہے تو دوسرا ہندوستان میں۔ اربوں روپوں کے یہ مالک صرف غریبوں کو آپس میں لڑا کر ان میں نفرتیں پھیلاکر وہ وہ کام کر جاتے ہیں جن پر عام آدمی کی نظر بھی نہیں جاتی۔
نفرتوں کا پھیلاؤ نفرتوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ جنگوں کی راہ ہموار کرتا ہے اور جنگیں لڑنے کے لیے ہتھیار چاہیے ہوتے ہیں اربوں ڈالر ہتھیاروں کی انڈسٹری میں لگے ہوئے ہیں اور اس انڈسٹری میں سرمایہ لگانے والے اربوں ڈالر کا منافع کماتے ہیں۔ دیکھا آپ نے اس حوالے سے ہم نے صرف ایک جھلک دکھائی ہے، لاکھوں لوگ اس انڈسٹری میں رات دن کام کرتے ہیں لیکن انھیں ملتا کیا ہے؟ پیٹ کے لیے روٹی تن کے لیے کپڑا۔