کرپشن کے الزامات کے مقدمات میں الجھے ہوئے سیاست دان ایک بار پھر سیاسی میدان میں آ رہے ہیں۔ وہ اب حکومت میں نہیں ہیں بلکہ اپوزیشن میں ہیں، اب وہ اپنی روایتی اور پرانی سیاست کو نئے انداز میں دکھا رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا آزاد ہے اور اسے آزاد ہونا چاہیے، اسی لیے وہ مثبت اور منفی دونوں پہلو دکھا رہا ہے۔
ہمارے بدقسمت ملک میں ابتدا ہی سے سیاست پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، اس لیے میڈیا میں بھی اکثروہی سیاستدان نظر آتے ہیں جن کا تعلق اشرافیہ سے ہی ہوتا ہے۔ ملک کی اشرافیہ عوام کے ذہنوں میں مختلف قسم کے نظریاتی زہر پھیلانے میں مصروف ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی اور حال میں حکمران طبقات نے عوام کی دولت پر قبضہ کیا اور اس طبقے نے اربوں روپے کی کرپشن کی کہ ملک اب دیوالیہ پن کے کنارے تک پہنچ چکا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن اپوزیشن کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اس کی جدوجہد کامیاب نہیں ہو رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام اپوزیشن کی گھسی پٹی باتیں سننے کے لیے تیار نہیں۔ حالت یہ ہے کہ قانون ساز ادارے لڑائی کے اڈے بن گئے ہیں، ایجنڈوں کی کاپیاں پھاڑ کر قانون ساز اداروں میں اڑانا، اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرنا اور نعرے لگانا ہی اب اپوزیشن کا کام رہ گیا ہے۔
اس ملک کے عوام اپوزیشن کی کارکردگی سے بھی اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں، ہماری اپوزیشن جمہوریت کا پرچم لہراتے ہوئے جو نعرے بلند کر رہی ہے، یہ اس لیے بے فائدہ ہے کہ ملک کے عوام تاحال باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے آنے سے پہلے دس سال تک انھی سیاسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے، ان کی اقتصادی پالیسیوں نے ملک کو کھربوں روپوں کے قرضوں کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے، اس کا خمیازہ عوام اور تحریک انصاف کی حکومت بھگت رہی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کا تعلق ملک کی مڈل کلاس سے ہے جو ایلیٹ کی سیاسی طاقت کے سامنے بے بس ہے، اس حکومت کا بڑا جرم یہ ہے کہ یہ کرپشن میں سرے سے ملوث نہیں۔ ہماری اپوزیشن نے اپنے دور حکومت میں کرپشن کی، اب وہ اپنی کرپشن چھپانے کے لیے عوام کو سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں لیکن یہ اپوزیشن کی بدقسمتی ہے کہ عوام اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔
یہ ہمارے ملک کی کیسی بدقسمتی ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعظم مفرور ہیں اور ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں جن پر لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے عملدرآمد کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی حال موصوف کے بیٹوں کا ہے۔
کیا اس قسم کی خبروں سے ہمارے ملک کا وقار بلند ہو سکتا ہے۔ پاکستان ہمارا ملک ہے جسے حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کو غربت کا نمونہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اس غریب ملک کی کھال تک کھینچ لی گئی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اب بھی اس ملک کی ہڈیوں کو بھنبھوڑا جارہا ہے۔ یہ ہے ہماری اشرافیہ جو ملک کے اقتدار اور سیاست پر ہمیشہ سے قابض چلی آرہی ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے دو سالہ اقتدار کے دوران عوام کو بے لگام مہنگائی کا تحفہ دیا لیکن اس حوالے سے ہم حکومت کو الزام نہیں دے سکتے کیونکہ یہ سب کیا دھرا ہماری سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا ہے۔ 72 سال کا عرصہ سیاسی پارٹیوں اور آمریت کو آزمانے کے لیے ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔
اس عرصے میں جو کچھ کیا گیا وہ صرف اتنا ہے کہ ملک کو کھربوں روپوں کے قرضوں کی دلدل میں اس طرح دھکیل دیا گیا کہ عمران خان اس دلدل سے ملک کو نکالنے میں شاید ہی کامیاب ہوسکیں۔
ہماری سیاسی ایلیٹ ہمیشہ اپنے آپ کو جمہوریت یا آمریت کے دبیز پردے میں چھپانے کی کوشش کرتی آئی ہے۔ جب کہ جمہوریت ہو یا آمریت دونوں کی آڑ میں اشرافیہ راج کر رہی ہے۔ ہماری اشرافیہ میں تھوڑے بہت تو پڑھے لکھے لوگ ہوں گے جو جمہوریت کا مطلب سمجھتے ہوں گے۔ جمہوریت کا سیدھا سادہ مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے ہے۔
ہم اس جمہوریت کی تعریف بار بار عوام کے سامنے اس لیے کرتے ہیں کہ عوام کی آنکھیں کھل سکیں جو بند آنکھوں سے جمہوریت کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں دیہی آبادی کا 60 فیصد کسان اور مزارع ہیں۔ ہماری آبادی میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں اور غریب طبقات کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ کیا اس بھاری اکثریت کی پارلیمنٹ میں نمایندگی ہے؟
سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہر حال میں سرمایہ داروں کی بالادستی قائم رکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے انھوں نے ایک آسان طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ چونکہ عوام زیادہ پڑھے لکھے نہیں اور سیاست کے اسرار و رموز سے واقف نہیں کہ حکومتیں چلا سکیں۔
سو انھوں نے ہمیشہ کی حمایت کی اور دھوکا کھایا۔ ہماری اشرافیہ نے چور دروازے سے حکومت میں آنے کا ایک آسان طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے یعنی حکومت بذریعہ عوام۔ بے چارے عوام اس نیابتی جمہوریت کے اسرار و رموز کیا جانیں۔ وہ پانچ سال میں ایک بار اشرافیہ کو ووٹ دے کر اقتدار میں لانے کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے اہل فکر اہل دانش کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو عوامی جمہوریت کا مطلب سمجھائیں۔