صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے تضادات نے ملک کے مستقبل کو ایک خطرناک حقیقت میں بدل دیا ہے۔ بے شک کورونا کی وجہ سے حکومتیں پریشان ہیں لیکن اس صورتحال میں خود مرکزی اور صوبہ سندھ کی حکومتوں کی سیاست بلکہ خود غرضانہ اور ملک دشمن سیاست کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کو سیاست کار ایک ٹول کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کا ابتدا ہی سے یہ خیال رہا ہے کہ لاک ڈاؤن سے عام مزدور جنھیں ہم دیہاڑی دار مزدور کہتے ہیں فاقہ کشی سے دوچار ہوجائیں گے اور ملکی معیشت تہہ و بالا ہوکر رہ جائے گی۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے لیکن مرکز اور صوبہ سندھ اپنی سیاست کے زیر اثر ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس قومی مسئلے کو سیاست کی نذر کر رہے ہیں۔ ملک میں متعدد معیشت دان موجود ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی ساری صورتحال ان معاشی ماہرین کے سامنے رکھ کر ان سے گائیڈنس لیتے کہ اس وقت لاک ڈاؤن مناسب اور قومی مفاد میں ہے یا لاک ڈاؤن قومی مفادات کے خلاف ہے، اس منطقی طریقے کو اختیار کرنے کی بجائے مرکز مغرب کی طرف جا رہا ہے تو صوبہ سندھ مشرق کی طرف جا رہا ہے اور اس بات کے نقصانات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
کورونا کی ظالمانہ وبا سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں بلکہ ساری دنیا کورونا کی زد میں ہے، جس مسئلے پر ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں برسر پیکار ہیں۔ یہ مسئلہ ساری دنیا کو درپیش ہے اور دنیا کے حکمران اور سیاستدان سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کے مطابق ان مسائل کو حل کر رہے ہیں لیکن پاکستان دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جس نے اس مسئلے کو متنازعہ بنا رکھا ہے۔
اس سیاست کی وجہ یہ ہے کہ پارٹیاں خصوصاً پیپلز پارٹی اس انتہائی خطرناک موقعے کو قومی مفاد کی بجائے سیاسی مفاد کے تناظر میں دیکھ رہی ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کر رہی ہے کہ اگر کورونا قابو سے باہر ہو گیا تو وہ سیاستدان بھی نہیں بچ سکیں گے جو ایک خطرناک قومی مسئلے پر گندی سیاست کر رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت زیروزبر ہو کر رہ گیا، لاکھوں عوام اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے عوام میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے جوکسی وقت بھی خونی احتجاج میں بدل سکتی ہے۔
موجودہ تنازعے کے علاوہ ہمارے سیاستدان بہت سارے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں جن کا تعلق ہرگز قومی مفادات سے نہیں بلکہ یہ سارے تنازعات ذاتی اور جماعتی نوعیت کے ہیں، سیاست دانوں کی ان خرمستیوں کی وجہ یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق اور اپنی طاقت کا استعمال نہیں کر پا رہے ہیں کہا جاتا ہے ہمارا ملک جمہوری ہے لیکن ہماری جمہوریت سیاستدانوں کے ایوانوں تک محدود ہے۔ آج تک سیاستدان بادشاہوں کی طرح کام کر رہے ہیں سیاستدانوں اور عوام کا واسطہ پانچ سال بعد انتخابات کے موقعے پر پڑتا ہے اور انتخابی مہم کے دوران عوام کو یہ خوشخبری دی جاتی ہے کہ اب ان کے دیرینہ مسائل حل کر دیے جائیں گے۔
یہ وعدے ہر پانچ سال بعد سیاسی ایلیٹ عوام سے کرتی ہے اول تو انتخابی مہم کے بعد اہل سیاست غائب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے عوام سیاست دانوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن انھیں زمین کھا جاتی ہے یا آسمان اس کا پتا نہیں چل سکا۔ اس کلچرکا نتیجہ یہ ہے کہ عوام سیاست دان ایک دوسرے سے اجنبی ہوگئے ہیں کیونکہ اہل سیاست ہمیشہ اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے پیچھے رہے ہیں، یوں عوام ان کی نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔
صوبہ سندھ میں مرکز اور صوبے کے درمیان صرف مسائل پر اختلافات ہیں، نہ عوام کی بھلائی کے حوالے سے اہل سیاست کبھی اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاست دان پچھلے 10 سال کے دوران جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ ہے اربوں روپوں کی لوٹ مار، ہمارے ملک میں غربت کی شدت کی وجہ یہی ہے کہ عوام کی محنت کی اربوں روپوں کی کمائی پر اشرافیہ قابض ہے اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لوٹ مار کے اربوں روپوں کو محفوظ "مقامات" پر پہنچا دیا گیا ہے اور یہ کام اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ کسی کو ہوا تک نہیں لگ سکی۔
پورے دس سال تک حکومت اور اس کی پارٹنر پارٹیاں بے خطر و بے خوف لوٹ مار کا بازار گرم کرتی رہیں۔ اب ان بددیانت سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔ احتساب کے اس "جرم" کے خلاف سابق سیاستدانوں نے وہ حشر برپا کر رکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے ایجنڈے میں صرف "نیب" ہے، کرپٹ سیاستدان ہر قیمت پر نیب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔