ساری دنیا کے جمہوری ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلی کا ایک طریقہ کار متعین ہے، ہر ملک اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد الیکشن میں جاتا ہے اور عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ کس جماعت کو اقتدار میں آنا چاہیے جس جماعت کو اکثریتی ووٹ ملتے ہیں وہ جماعت برسر اقتدار آتی ہے لیکن انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں الیکشن سیاسی جماعتوں کی ضرورتوں کے مطابق ہوتے ہیں۔
آئین کے مطابق الیکشن میں ابھی تین سال باقی ہیں لیکن ہماری اپوزیشن مطالبہ کر رہی ہے کہ فوری الیکشن کرائے جائیں ورنہ وہ کسی دیوار یا گھر کی طرح حکومت کو گرا دیں گے۔ اس حوالے سے اپوزیشن نے ایک عدد اے پی سی کا اہتمام کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت گرانے کے لیے تحریک چلائی جائے اور تحریک چلانے کے لیے تیاریاں شروع کی جا رہی تھیں کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر تحریک کھٹائی میں پڑ گئی ہے اور تحریک کی بانی جماعت ٹکڑوں میں بٹ رہی ہے اور اپوزیشن کے صدر محترم منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کئی اور سیاسی قائدین بھی منی لانڈرنگ وغیرہ کے کیسوں میں ملوث ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت گرانے کا ایک بڑا مقصد منی لانڈرنگ اورکرپشن کیسزکو ختم کرانا ہے۔ اگر یہ الزام سچ ہے تو کوئی تحریک اپوزیشن کو نہیں بچا سکتی اور اپوزیشن کے اہم مذہبی و سیاسی رہنما پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ خبر یہ ہے کہ
توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے ان مذہبی و سیاسی رہنما کو بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن ریاستی طاقت کے سامنے یہ سارے ڈرامے فلاپ ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپوزیشن کے معززین کے کارناموں سے بھرے ہوئے ہیں اور عوام ان کارناموں کی وجہ سے اپوزیشن کو پسند نہیں کر رہے غالباً یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے اب تک عوام سے رجوع نہیں کیا۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ کچھ خواص تو آ جائیں گے عوام نہیں آئیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان ترجیحات کی بات بہت کرتے ہیں لیکن خود نہ ترجیحات کا تعین کرتے ہیں نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً عوام کو مہنگائی مشتعل کر سکتی ہے اور مہنگائی کو بے لگام کر دیا گیا ہے۔ مہنگائی عوام کو سڑکوں پر لاسکتی ہے اور ہماری اپوزیشن اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، کیا عمران خان کے خیال میں مہنگائی آج کی ترجیحات میں شامل نہیں؟ ہمارے ملک کے تاجروں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے اور وہ ڈنکے کی چوٹ پر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ہماری پولیس دنیا کی نامور ترین پولیس ہے۔
بھتے کا ہتھیار ہر موقع پر کام آتا ہے۔ تاجر کو چھوڑیے ایک معمولی ریڑھی والا بھتہ دے کر اپنی مرضی کی قیمتوں پر اپنی اشیا فروخت کرتا ہے جہاں یہ صورت حال ہو وہاں عوام سے حمایت کی توقع کرنا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ عمران خان کو وزیر اعظم کی حیثیت سے عوام کی ایک ایک پریشانی سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے۔ کیا ایسا ہو رہا ہے؟ عوام چونکہ سابق کرپٹ حکومتوں سے بدظن ہیں اس لیے موجودہ حکومت کو برداشت کر رہے ہیں ورنہ اب تک اس کا باجا بج جانا تھا۔
ماضی کی حکومتیں بڑی دور اندیش تھیں انھوں نے اپنے دور حکومت میں معاشرے کے اہم طبقات کو خوب نواز کر اپنا مطیع بنا لیا تھا آج یہ طبقات جہاں ضرورت ہو اپوزیشن کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اب بھی مضبوط ہے اور سابق حمایتی آج خاموشی سے اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اس سہولت کی وجہ سے اپوزیشن اب بھی مضبوط ہے۔ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ابتدا سے وہ غلامانہ ذہنیت کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں انھیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ حکومتیں ان کی محتاج رہتی ہیں وہ حکومتوں کے محتاج نہیں ہوتے۔
ہماری جمہوریت کا ایک پہلو بہت حوصلہ افزا ہے کہ حکومت عوام کے دباؤ میں رہتی ہے بشرطیکہ عوام اپنی طاقت کو پہچانیں۔ مغربی ملکوں میں عوام اس حوالے سے باشعور ہیں اور بوقت ضرورت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان کا شمار ملک کے مقبول رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ الیکشن مہم کے دوران تحریک انصاف کے جلسوں میں لاکھوں عوام شرکت کرتے تھے لیکن حکومت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا آج کے حالات میں ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان عوام سے رابطے میں رہیں۔