مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے دو سال اخباری بیانات، پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اب ایک بار پھر دوسرے راستے سے عوام کو سڑکوں پر لانے کی ابتدا کر رہے ہیں۔ مریم نواز اس مہم کی سربراہ ہوں گی۔
ہائیکورٹ میں پیشی کے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیگی رہنماؤں نے کچھ مخصوص عوام کے ساتھ جلوس کی شکل میں ہائیکورٹ جانے کی کوشش کی، اپوزیشن عوام کو قریب لانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے پہلا کام یہ کیا جا رہا ہے کہ لیگ کے اندرونی حلقوں کو متحرک کرنے کے لیے ہر طرح سے ان کی مدد کی جا رہی ہے۔
دونوں اتحادی جماعتیں بہ ظاہر تو ایک دوسرے کی ساتھی نظر آتی ہیں لیکن ان کے داخلی تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ایک وقت آ سکتا ہے کہ یہ تضادات پہاڑ بن کر ان کی راہ میں حائل ہو جائیں۔ اس حوالے سے دو جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی نظریں وزارت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں جب کہ مریم نواز چاہتی ہیں کہ وہ نوازشریف کی جگہ لے لیں اور وہ اس سے پیچھے ہٹنے کے موقف کی حامی نہیں ہیں، یہ اس اتحاد کا سب سے کمزور پہلو ہے جس کا کوئی حل نہیں، ادھر شہباز شریف بھی نواز کی جگہ لینے پرکام کر رہے ہیں۔
یہ اقتدارکا مسئلہ ہے اس میں کسی قسم کے رشتے ناتے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرکوئی ایسا وقت آتا ہے کہ قیادت کے لیے مریم نواز اور شہباز شریف کے درمیان وزارت عظمیٰ کے لیے مقابلہ ہوتا ہے تو کس قدر شدید تضادات سامنے آسکتے ہیں؟ کہنے کو تو شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ مریم نواز مستقبل کے حوالے سے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے "مناسب" نہ سمجھیں۔ یہ وہ بنیادی تضاد ہے جو مستقبل میں مسلم لیگ (ن) کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔
اقتدار اور اختیارات کا مسئلہ کس قدر سنگین ہے، اس کا اندازہ مغلیہ دورکے سلاطین کی تاریخ سے کیا جاسکتا ہے۔ اقتدار کے لیے بیٹوں نے باپ کو بندی خانوں میں بند کردیا اور باپ برسوں ان بندی خانوں میں محبوس رہے بلکہ ان بندی خانوں ہی میں انتقال کر گئے۔ بھائیوں نے بھائیوں کو قتل کیا، یہ ہماری تاریخ کے وہ المیے ہیں جن کے تصور ہی سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ہماری سیاست کا کیا اقتدارکے لیے مغل بادشاہوں کے راستوں پر ذرا مختلف انداز میں عمل نہیں کرسکتے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک موالی سید اکبر کے ہاتھوں قتل کردیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا وہ حصہ ہے جو مختلف انداز سے تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے موجودہ دور میں سیاسی مخالفین کو قتل تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اقتدار کے راستے میں آنے والوں کو مختلف طریقوں سے ہٹایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ کیا اپوزیشن کے رہنما حالات کو نازک بنانے کے لیے سیاسی تشدد کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ہمارا ملک اب تشدد کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کا نتیجہ مارشل لا کی شکل میں نکل سکتا ہے، یعنی عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے، ہماری اپوزیشن حکومت کو گرانے کی باتیں تسلسل کے ساتھ کر رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو گرانے کا راستہ کیا ہوگا؟ ایک راستہ سیاسی تشدد کا ہے ایوب خان کو ہٹانے، بھٹوکی حکومت کو گرانے کے لیے یہی راستہ اختیار کیا گیا۔ پیسہ اور دولت اس کام میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، حکومت گرانے کی مہم دولت کے استعمال سے آسان ہو سکتی ہے۔
اپوزیشن آج بکھری ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن جب دولت کی جھنکار ہوگی تو سارے حکومت مخالف ایلیمنٹ متحد ہو سکتے ہیں اور حکومت گرانے کی مہم میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بڑا المیہ ہوگا۔ کیونکہ ایک مڈل کلاس کی حکومت کو گرانے سے وہ تسلسل ٹوٹ جائے گا جس کی امید کی جا رہی ہے۔ یعنی عمران حکومت کے بعد اس کی جگہ ایک اور مڈل کلاس حکومت ہی لے سکتی ہے جس میں مزدور قیادت اور کسان قیادت کو آگے لایا جاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ملک اشرافیہ سے پاک ہو سکتا ہے۔ ایک بار اگر اشرافیہ سے مکمل طور پر جان چھڑا لی گئی تو پاکستان کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔
عمران خان اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں تو وہ نچلے طبقات کو اوپر لاسکتے ہیں اور ایک ایسی جمہوریت قائم ہو سکتی ہے جو حقیقت میں عوامی جمہوریت کہلا سکتی ہے جس کا خواب پاکستانی عوام پچھلی سات دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں اور دیہی آبادی کا 70 فیصد حصہ کسانوں کا ہے اور باقی غریب عوام ہیں یہ سب عوامی جمہوریت کے ذریعے حکومت میں آسکتے ہیں۔ اشرافیہ کے وہی خاندان ہیں جو بار بار چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آتے ہیں اور عوام کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور اشرافیہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہے۔
اس ملک میں ادیب، شاعر، دانشور طبقہ جس قسم کی کٹھن زندگی گزارتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے عوامی جمہوریت کے آنے سے ورکنگ کلاس کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک بہتر اور آسودہ زندگی گزارنے کا موقعہ ملے گا جو ان کا چھینا ہوا حق ہے۔ اگر ایسی تبدیلی پاکستان میں آتی ہے تو پسماندہ ملکوں میں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا اور صدیوں سے بھوک پیاس کا شکار عوام سکون کا سانس لے سکیں گے لیکن تبدیلی کے عمل میں ان دانشوروں، مفکروں، اہل علم اور اہل فن کو حصہ لینا ہوگا۔