جمہوریت خواہ وہ کتنی ہی قابل اعتراض ہو، کتنی ہی بدنام یا بے لگام ہو، اس میں اپوزیشن ایک ناگزیر حصے کے طور پر موجود ہوتی ہے اور اپوزیشن کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ حکومت کے منہ میں لگام دینے کے لیے اپنے حق تنقید کو استعمال کرے۔
آج یہ بات یوں کالم کا موضوع بن رہی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اپوزیشن جتنے چاہے جلسے کر لے اگر قانون توڑے گی تو جیل کے اندر ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان کو غالباً یہ بات اس لیے کرنی پڑی کہ ہماری سیاسی تاریخ میں اپوزیشن حق تنقید کے نام پر عموماً قانون ہی کو نہیں توڑتی رہی ہیں بلکہ اخلاق کا بھی ستیا ناس کرتی رہی ہیں۔
حکومت پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ فوج کی حمایت یافتہ ہے۔ بلاشبہ جمہوری حکومتیں فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی اپنے مفادات کے لیے حمایت حاصل کرنے کو سیاسی جرم سمجھتی ہیں اور جن ملکوں میں جمہوری نظام قائم ہوتا ہے وہاں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کو اخلاقی جرم ہی نہیں جمہوریت کا قتل سمجھتی ہیں۔
پاکستان بھی ایک جمہوری ملک ہے اس حوالے سے اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے حصول سے گریزاں رہنا چاہیے لیکن جو جماعت یا جماعتیں حکومت پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے حصول کا الزام لگا رہی ہیں ان کی سیاسی تاریخ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے کہ جمہوریت کے قدردان اس تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو سب حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔
یہ کوئی بہت پرانی بات ہے نہ یاد داشت سے نکلی ہوئی بات ہے، اس حوالے سے جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق کا ذکر اس تواتر سے کیا جاتا ہے کہ ان حضرات کی حمایت حاصل کرنے والوں اور ان حوالوں سے حکومتوں پر تنقید کرنے والوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ کوئی بہت زیادہ پرانی باتیں نہیں ہیں نہ عوام کی یادداشت سے محو ہوگئی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اصولی جمہوری حکومتیں اس قسم کے الزامات سے دور رہی ہیں لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ جب اس قسم کے سیاسی کردار اپنے مخالفین پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے چل رہی ہے۔
میرے خیال میں پی ٹی آئی حکومت کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور مڈل کلاس کی کوئی حکومت ہماری ایلیٹی اپوزیشن کو پسند نہیں کیونکہ ہماری ایلیٹ عوام تو عوام مڈل کلاس کو بھی پسند نہیں کرتی۔ دوسری جانب تجزیہ نگار یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی ایک ٹولہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا تعلق چینی اور آٹا مافیا سے ہے، چینی اور آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مہنگائی اسی مافیا کا کارنامہ اور حکومت کی نااہلی ہے۔
عمران حکومت کو گرانے کے لیے اب تک سرتوڑکوششیں کی گئیں۔ چینی اور گندم کے بحران پیدا کیے گئے، میری رائے میں اپنے "خیر خواہوں " کے ذریعے مہنگائی کو آسمان پر پہنچانے کی کوشش کی گئی اورکی جا رہی ہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہے کیونکہ حکومت رات دن عوامی بھلائی کی کوششوں میں مصروف ہے۔
بلاشبہ مہنگائی حکومت کے چہرے کا داغ بن گئی ہے لیکن اس مہنگائی میں بھی ہماری جمہوریت پسند اپوزیشن کا ہاتھ ہے کیونکہ پچھلے دس سالوں کے درمیان ہماری سابق حکومتوں نے ہر طبقے میں اپنے اتنے حمایتی پیدا کرلیے ہیں جو مہنگائی وغیرہ حکومت مخالف کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات یا سازشوں کی بار بار یاد دہانی اس لیے ضروری ہے کہ ہماری "پوتر" اپوزیشن کے کارنامے عوام کے سامنے آتے رہیں اور عوام ان تلخ حقائق سے واقف ہوتے رہیں تاکہ حکومت کے خلاف سازشیں ناکام ہوتی رہیں۔
ہماری اپوزیشن کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اس دوران بار بار عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتی رہی لیکن اپوزیشن پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں اور عوام میں یہ الزامات "مقبول" ہوگئے ہیں اور عوام کا ایک طبقہ اسے پسند نہیں کرتا ہے۔ اس حوالے سے آج کی تازہ خبرکے مطابق لندن میں شہباز شریف کے چار قیمتی فلیٹ کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔
تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ یہ سوا تیرہ لاکھ پاؤنڈ "ادھار" لے کر خریدے گئے ہیں۔ جی سوا تیرہ لاکھ پاؤنڈ۔۔۔۔ اگر آپ کو پاؤنڈ کا حساب آتا ہے تو حساب کرکے دیکھیں کہ سوا تیرہ لاکھ پاؤنڈ کے پاکستانی روپے کتنے ہوتے ہیں۔ ہماری اپوزیشن کی اسے مایوسی کہیں یا کوئی اور نام دیں کہ وہ کوشش بسیار کے باوجود عمران خان کی ایک روپے کی کرپشن کا پتا نہ لگا سکی نہ ان کے وزرا اور ساتھیوں پر کرپشن کا الزام لگا سکی۔ اب نئے نام سے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہی ہے دیکھیے اس بڑی اور منظم کوشش کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟