بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے شب و روز سے پاکستان کا متاثر ہونا ضروری ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان وجہ تنازع کشمیر ہے۔ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے تقسیم ہند کے محرکات کے پس منظر میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے، لیکن ہوس ملک گیری اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے بغض نے بھارت کو کشمیر پر فوجی قبضے کے لیے آمادہ کیا اور بھارت نے اس کا احساس کیے بغیر کشمیر پر قبضہ کر لیا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔
اس علاقے میں کشیدگی اور خون خرابہ روز کا معمول ہو گا، کشمیری عوام کی زندگی عذاب ہو جائے گی۔ آخر وہی ہوا لائن آف کنٹرول پر ہر روز خون خرابہ روز کا معمول بن جائے گا، یہی ہو رہا ہے کشمیری عوام ایک خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول ہمیشہ خون خرابے کا شکار بن جائے گی۔ سرحد کے دونوں جانب رہنے والوں کی زندگی عذاب ہو جائے گی۔
کشمیر صدیوں سے مسلمانوں کا وطن رہا ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند نے اس ہزاروں سالہ سیٹ اپ کا ستیاناس کر دیا، صدیوں سے بھائیوں کی طرح رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے قتل و غارت روز کا معمول ہو جائے گا اور یہی ہو رہا ہے۔ کشمیر میں امن پسند لوگ بھی رہتے ہیں، ان کی زندگی عذاب بن جائے گی اور بن گئی۔ جھگڑا یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی رہتے ہیں۔ کشمیر میں دانشور بھی رہتے ہیں، ادیب اور شاعر بھی۔ شاعروں کی شاعری ایک نوحہ بن گئی ہے۔ اس جھگڑے نے کشمیریوں کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لی، اس کی جگہ خوف اور نفرت نے لے لی۔ اب کشمیری عوام خوف اور نفرت کے سائے میں زندہ ہیں۔
بھارت کا حکمران طبقہ طاقت کے بل پر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کے درپے ہے۔ اس حوالے سے سازشوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ کشمیری ہندوؤں کو باہر سے لا کرکشمیر میں بسایا جا رہا ہے اورکشمیر کی شہریت دی جا رہی ہے۔ اب یہ نان کشمیری کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں گھر بنا سکتے ہیں۔ انسان ہونے کے ناتے کشمیریوں کو بھی کشمیر میں رہنے کا حق ہے لیکن چونکہ اب کشمیر ایک متنازعہ علاقہ بن گیا ہے اس لیے کشمیری مسلمان ہندو کشمیریوں کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس تنازعے کی وجہ سے ہندو اور مسلمان دونوں کشمیریوں کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔ عام کشمیری اس جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتا لیکن سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کشمیر کو ایک ایسے جہنم میں بدل دیا ہے جہاں رہنے والے لوگ ہر وقت موت کے سائے میں رہتے ہیں۔
تقسیم کے بعد جب کشمیر پر چھینا جھپٹی ہو رہی تھی اور کشمیریوں کا خون بہہ رہا تھا تو بھارت خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے فیصلہ دیا کہ اس متنازعہ مسئلے کو استصواب رائے یعنی عوام کی رائے کے مطابق حل کیا جائے لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ یوں یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان لٹکا رہ گیا۔ بڑی طاقتوں کا جھکاؤ بڑے ملک کی طرف تھا یوں انصاف بڑی طاقتوں کی سیاست کا مرکز بن گیا اور بے چارے کشمیری عوام بڑی طاقتوں کی سیاست اور بھارت کی ہٹ دھرمی کا مرکز بن کر رہ گیا اور آئے دن خون خرابہ کشمیری عوام کا مقدر بن گیا۔
کشمیرکی سیاست میں یہ خطرناک پیچیدگیاں اس لیے پیدا ہو گئیں کہ بھارت میں بی جے پی برسر اقتدار آ گئی۔ بھارت کی تاریخ میں مودی جیسا موذی اور انتہا پسند ہندو کبھی برسر اقتدار نہیں آیا۔ مودی ہندوتوا کی ڈالی سے لٹکا ہوا ہے وہ بھارت کو ایک کٹر ہندو ریاست بنانا چاہتا ہے اورکشمیری تاریخ کے پس منظر میں ایسا آسانی سے ممکن نہیں کیونکہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے جہاں ہندو اقلیت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کشمیر کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہی لٹکا رہے گا اور غریب انسانوں کا خون بہتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کے ہندو انتہا پسند کشمیر کے مسلمانوں کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔
کیا مسلمان ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس جرم کی سزا موت مقرر کی جائے۔ ایک تازہ اطلاع کے مطابق ہندو دہشت گرد کشمیر میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں، اگر یہ اطلاع درست ہے تو کشمیری مسلمانوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان کے حکمرانوں کی نظروں سے یہ خطرناک خبریں نہیں گزرتیں۔ کیا اقوام متحدہ کے حکام ان خطرناک خبروں سے غافل ہیں۔ کیا اس اقدام کو کشمیری مسلمانوں کے قتل کی اسکیم نہیں کہا جا سکتا، ایک طرف کشمیری مسلمانوں کے خلاف یہ سازشیں ہیں۔ دوسری طرف عالمی ضمیرکی بے حسی ہے کہ اس خونی مسئلے کو حل کرانے کی کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے، اقوام متحدہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرائے۔
کشمیر کے وہ مفکرین جو انسان کی شناخت صرف انسان کی حیثیت سے کرتے ہیں وہ آگے بڑھیں اور متعصب اور انتہا پسند عناصر کے خلاف آواز اٹھائیں کیونکہ اگر دنیا آنکھ اور کان بند کر کے بیٹھ جائے تو کشمیری عوام یا کشمیر کے مسلمان یوں ہی قتل ہوتے رہیں گے۔ اس حوالے سے عوام میں تعصبات اور نفرتوں کو بڑھنے اور پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ صورتحال صرف کشمیر کے لیے ہی نہیں ساری دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کشمیر ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مذہب، ذات پات، رنگ و نسل کے حوالے سے انسان تقسیم ہیں لیکن کشمیر میں یہ تقسیم اس قدر خونی ہو گئی ہے کہ اب تک لاکھوں انسانوں کی بھینٹ لے چکی ہے یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسان انسان کا جانی دشمن بن گیا ہے۔
بھارت کی بدقسمتی یہ ہے کہ بھارتی عوام نے ایک ایسی فاشسٹ جماعت کو منتخب کیا ہے جو آخر کار بھارت کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی ہندو عوام کی بھاری اکثریت مل جل کر بغیر مذہبی تعصب کے رہنا چاہتی ہے لیکن ایک چھوٹی سی ہندو انتہا پسند اقلیت حکمرانوں کی حمایت کی وجہ سے کشمیر میں نفرتوں کے پہاڑکھڑے کر رہی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے تمام انسان خواہ ان کا تعلق کسی دین دھرم، ذات پات سے ہو اول و آخر آدم ہی کی اولاد ہیں اور اس ناتے سارے انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور بھائی بن کر رہنے ہی میں ان کی بقا اور خوشحالی کا دار و مدار ہے۔