انسان کی انسان پر حکومت کی خواہش بہت پرانی ہزاروں سال پرانی ہے۔ غلامی کا دور انسان پر انسان کی حکومت کا قدیم دور مانا جاتا ہے۔ معاشروں میں تبدیلی کے ساتھ یہ خواہش بھی تبدیل ہوتی گئی، غلامی کے دورکے بعد جاگیردارانہ نظام نے انسانوں پر انسانوں کی حکومت کا دوسرا دور شروع ہوا، یہی جاگیردارانہ نظام منظم طریقے سے آپریٹ کرنے لگا تو یہ شاہانہ دور کہلایا۔
راجے، مہاراجے، شاہ، شہنشاہ اس دورکے حکمران بن گئے، وقت کے ساتھ ساتھ ہر جبریہ نظام کے خلاف رائے عامہ متحرک ہوتی رہی اور یہی رائے عامہ منظم طریقے سے حرکت میں آئی تو جمہوریت کہلائی۔ دنیا میں جمہوریت ہی کو ایسا نظام قرار دیا گیا جو جبر کے بجائے انسانوں کی مرضی کا احترام کرتا ہے۔ عوام کی مرضی جب حکومت میں شامل نہ ہو اسے خواہ کوئی نام دیں وہ آمرانہ ہی کہلاتی ہے۔
بھارت ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے بلکہ بھارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن دنیا کی کسی جمہوریت میں جبر شامل ہو جائے تو اسے کسی حوالے سے بھی جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ 1947 میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو برطانیہ کی ہندی ریاستوں کو یہ آزادی دی گئی کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں جس ملک کے ساتھ چاہیں شامل ہوجائیں لیکن اس شمولیت کو رائے عامہ سے مشروط نہیں کیا گیا۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاستوں کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی ریاست کوکس ملک میں شامل ہونا چاہیے اور اس کا طریقہ کار یہی بنایا گیا کہ حکمران کو یہ اختیار ملا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان میں سے جس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں شامل ہوجائیں، سو مہاراجہ کشمیر نے خوشی سے یا جبر سے بھارت میں شمولیت کی حامی بھرلی یوں کشمیر بھارت میں شامل ہوگیا، چونکہ سارا ہندوستان ایک ہنگامی دور سے گزر رہا تھا اور جمہوریت طاقت زدہ تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔
پاکستان نے بھی کشمیر کے ایک نسبتاً چھوٹے حصے پر قبضہ کرلیا اور یہ حصہ آزاد کشمیر کہلایا۔ یہ دونوں حصے اس لیے متنازعہ بن گئے کہ یہ کام رائے عامہ کی مرضی کے بغیرکیا گیا، چونکہ بھارت پاکستان سے زیادہ طاقتور تھا سو اس نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا پاکستان نے بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے کچھ حصے کو آزاد کرلیا۔ یہ آزاد کشمیر کے نام سے پاکستان کا حصہ بن گیا، لیکن اس تقسیم میں رائے عامہ کا کوئی دخل نہ تھا، اس لیے کشمیر ایک متنازعہ علاقہ بن گیا۔ اس ابتدائی دور میں پنڈت نہرو جیسے نسبتاً کھلے ذہن کے حکمران موجود تھے سو اگر پنڈت جی اور ان کے ساتھی چاہتے تو کشمیر کو جسے متنازعہ بنادیا گیا تھا۔
جمہوری طریقے سے حل کرسکتے تھے لیکن پنڈت جی سیاسی مفادات کے ریلے میں بہہ گئے جس کا نتیجہ کشمیر ایک مستقل تنازعہ میں بدل گیا اور اس تنازعے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگیں ہوئیں چونکہ ابتدائی دور میں قبائل اس تنازعہ کا ایک حصہ بن گئے تھے اورکشمیرکو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے طاقت استعمال کر رہے تھے۔ پنڈت جی کو یہ شک ہوگیا کہ قبائل بتدریج کشمیر پر چھا جائیں گے سو اس خوف کی وجہ سے وہ اقوام متحدہ میں فریادی بن کر چلے گئے کیونکہ وہ آزاد قبائل سے بہت خوفزدہ تھے لیکن اقوام متحدہ نے فیصلہ دیا کہ تنازعے کا حل استصواب رائے سے کیا جائے اور یہ فیصلہ بھارت کے خلاف اس طرح ہوگیا کہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور استصواب کرایا جاتا توکشمیر کا پاکستان میں شامل ہونا یقینی تھا، سو اس خوف سے بھارت نے اقوام متحدہ کا فیصلہ ماننے سے انکارکردیا اور یوں یہ مسئلہ 71 سال سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ناقابل حل تنازعہ بن کر رہ گیا۔
اس تنازعہ کی وجہ سے اب تک 70 ہزار کشمیری جاں بحق ہوگئے اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں شدت اس لیے آگئی ہے کہ مودی سرکار نے ان شقوں کو ختم کردیا جوکشمیر کو داخلی طور پر با اختیار بناتی تھیں۔ بھارت کے اس اقدام نے کشمیرکو ایک بار پھر خاک وخون میں ڈبو دیا ہے اور کشمیر ایک بار پھر بارود سے اٹ گیا ہے۔ پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کو دبایا جا رہا ہے کشمیری پیلٹ گنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
اگر بھارت میں کوئی جمہوری مزاج کی حکومت ہوتی اور دونوں پسماندہ ملکوں کے بہتر مستقبل کی حامی ہوتی تو نہ یہ مسئلہ پیدا ہوتا نہ تین جنگیں لڑی جاتیں نہ دونوں ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں " مبتلا " ہوکر اپنے بجٹوں کا ایک بڑا حصہ برباد کرتے۔ آج تقریباً دو ہفتوں سے کشمیر پر کرفیو کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے کشمیری عوام بھارتی آٹھ لاکھ سے زیادہ فوج سے لڑ رہے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیر میں جمہوری روایات کی پاسداری کر رہی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے غریب اور انتہائی پسماندہ عوام بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ آئے دن غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ مودی حکومت ایک کٹر مذہبی حکومت ہے اور بھارت میں ہندوتوا کا کٹر مذہبی نظام قائم کرنا چاہتی ہے جس کی مزاحمت لازماً کشمیری عوام کریں گے یوں خون خرابے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور نقصان غریب عوام ہی کا ہوگا۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کا انتہا پسند ٹولہ ہر معقول تجویزکو رد کرتا آرہا ہے۔ امریکا کے صدر نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی تجویز پیش کی لیکن مودی حکومت نے اس پرامن حل کی تجویزکو بھی رد کرکے جنگ کو راستہ دیا ہے کیا مودی سرکار اس کے انجام سے واقف نہیں؟