یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ کردیا جاتا ہے، پہلے فی لیٹر زیادہ اضافے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے پھر وزیر اعظم کی طرف سے نسبتاً کم مہنگائی کا اعلان کیا جاتا ہے، یوں مہنگائی تو ہوجاتی ہے مہنگائی میں کچھ کمی کا اعلان وزیر اعظم کو جاتا ہے۔
یہ ترکیب ایک عرصہ دراز سے استعمال کی جا رہی ہے جس سے عوام اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ہر ماہ مہنگائی میں اضافے کا کیا جواز ہے؟ ہر ماہ کیا جانے والا اضافہ خواہ وہ کتنا ہی کم ہو عوام کے سر پر بوجھ بن کر مسلط ہوتا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی ہر ماہ قیمتوں میں اضافہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ پٹرولیم کی عالمی منڈی میں ہر ماہ اضافہ ہو جاتا ہے ہر شخص کو نفسیاتی طور پر راضی کرلیا جاتا ہے کہ ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر ماہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا جاتا ہے؟
کیا ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی میں کمی ہو جاتی ہے یا ہر ماہ عادتاً مہنگائی کا طوق عوام کے گلے میں ڈالا جاتا ہے وجہ آپ کچھ بھی بتائیں یہ عوام پر کھلا ظلم ہے، عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں یہ منافع میں اضافے کا کارن ہی نظر آتا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ ایک قابل مذمت اقدام ہے۔
اصل میں معاملہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ پٹرولیم مافیا کا لالچ ہے جو قیمتوں میں اضافے کا بڑا سبب ہے پٹرولیم مصنوعات کی تیاری میں کوئی ایسی کمی بیشی نہیں ہوتی جو ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فطری جواز کہلا سکے۔ اگر اس حوالے سے کوئی فطری جواز ہے بھی تو یہ ایک ظالمانہ اقدام کہلایا جاسکتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ماہانہ اضافہ ایک کھلی دھاندلی ہے اور اس دھاندلی کو اب ختم ہونا چاہیے۔ اگر اس ماہانہ مہنگائی کا کوئی جواز ہے بھی تو اس کا تدارک کیا جانا چاہیے کیونکہ عوام کی آمدنی میں ہر ماہ اضافہ ممکن نہیں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ عوام کی تنخواہوں اور اجرتوں میں تو سال میں ایک بار اضافہ وہ بھی معمولی کیا جاتا ہے اگر یہ حقیقت ہے تو ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ایک معاشی ناانصافی کے علاوہ کچھ نہیں، جسے ہر حال میں ختم ہونا چاہیے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ماہانہ کے بجائے سالانہ اضافہ ہونا چاہیے جو انصاف کا تقاضا بھی ہے اور عام آدمی کی پہنچ میں بھی رہ سکتا ہے۔
یہی حال عام اشیائے صرف کا ہے کہ ان کی قیمتوں میں اضافہ تاجروں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے، آئے دن اشیائے صرف کی مہنگائی کا صرف ایک ہی ناروا جواز ہے کہ تاجر طبقہ مستقل لوٹ مارکا عادی ہو گیا ہے جسے ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دینا چاہیے۔
دوسرے ملکوں میں مہنگائی روزمرہ کا معمول نہیں بلکہ ان قیمتوں میں اضافہ اجرتوں اور تنخواہوں میں اضافے سے منسلک ہونا چاہیے اگر مہنگائی روز مرہ کا معمول ہے تو یہ ایک ظلم ہے اور اس ظلم کے خلاف عوام کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے خواہ اس کی سرکاری اور اقتصادی وجوہات کچھ ہی کیوں نہ ہوں اس قسم کے ظالمانہ اضافے کو ختم ہونا چاہیے تاکہ عوام پر سکون زندگی گزار سکیں۔
حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی سمیت تمام نا انصافیوں کا خاتمہ کر دے گی لیکن وہ اپنے وعدے وفا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کی نااہلی اور نالائقی کے علاوہ کچھ نہیں اگر یہ بات درست ہے تو عوام کو چاہیے کہ وہ حکومت کا گلا پکڑیں اور بتائیں کہ تم میں اور سابقہ حکومتوں میں کوئی فرق نہیں؟
بجٹ ہر حکومت کا ایک سالہ پروگرام ہوتا ہے جو سال بھر کی معاشی زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ حکومت کا تاجروں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ تاجر حکومت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق چلنے کے بجائے اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم حکومت کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت تاجر طبقے کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے یہاں ہم چینی کی مہنگائی کی مثال دے سکتے ہیں۔
سارا سال چینی کے تاجر چینی کی قیمت اپنی مرضی سے طے کرتے آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ چینی مافیا پر حکومت کا عدم کنٹرول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی کے کارخانوں کے زیادہ تر مالک سیاسی لوگ ہیں جو اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چینی کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔
ہم اور ہم جیسے قلم کاروں نے اس وجہ سے حکومت کی حمایت کی کہ یہ مڈل کلاس کی حکومت ہے عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی اور خاص طور پر مہنگائی کو روکنے میں سخت ناکام ہوگئی ہے بات پٹرولیم مصنوعات کی ہو یا عام اشیائے صرف کی، حکومت ہر دو صورتوں میں ناکام ہوئی ہے اور اس کی حمایت کرنے والے شرمندہ ہیں۔