Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qanoon Aur Insaf

Qanoon Aur Insaf

ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے ممالک طبقاتی تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ غریب طبقات ملکی آبادی کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ ہونے کے باوجود دو فیصد ایلیٹ کے غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا میں بہت سارے انقلابی آئے، انقلابی جماعتیں بنیں لیکن طبقاتی نظام طبقاتی مظالم کے ساتھ پھل پھول رہا ہے۔ غریب عوام جن کی تعداد کل آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ ہے، انتہائی ابتر زندگی گزار رہی ہے، اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ قسمت خراب ہے، تو انسان کیا کرسکتا ہے دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جب عوام کی نابرابری کو کم یا ختم کرنے کے بجائے اس کے جواز فراہم کرتی رہیں تو نابرابری کا کلچر ختم ہونے کے بجائے فروغ پاتا رہے گا۔

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسان کو پہلے تو روزگار نہیں ملتا اور خوش قسمتی سے مل بھی گیا تو وہ اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی فراہم نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ دو فیصد اشرافیہ ملک کی 80 فیصد دولت پر دھاندلی سے قابض ہے۔ سرکاری اہلکار قانون کے ذریعے عوام کو ہانکتے رہتے ہیں۔ غریب اور مظلوم کا کوئی حمایتی نہیں، وہ بے سہارا درخت سے گرے ہوئے پتوں کی طرح ہوا کے دوش پر سوار رہتے ہیں۔

ہر ملک میں مظلوموں کی دادرسی کے لیے قانون اور انصاف کا ایک نظام نافذ رہتا ہے لیکن انصاف کا حصول تو دور کی بات ہے، وکلا کی فیس غریب طبقات ادا کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ انصاف سے محروم دنیا کے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ یہ صورتحال عرصہ دراز سے جاری ہے، اگر کوئی معجزہ نہ ہوا تو یہ صورتحال یوں ہی چلتی رہے گی۔ اس حوالے سے ایک آسان طریقہ اس صورتحال سے بچنے کا یہ ہے کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے یا ایک ایسا عدالتی نظام تخلیق کیا جائے جس میں اول تو وکلا کی فیس برائے نام ہو، دوم کیس کے ٹرائل کی مدت 4 ماہ سے زیادہ نہ ہو۔ عدلیہ کیسز کے حوالے سے اتنی فیس مقرر کرے جو سائل وکلا کو آسانی سے دے سکے اور جو سائل وکیل کی فیس (ناقابل یقین) دینے کی سکت نہیں رکھتا، اس کے لیے سرکار کی جانب سے وکیل کا اہتمام کیا جائے۔

مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں کرپشن ہے۔ سائلین وکیل کی فیس ادا نہیں کرسکتے اور اس مجبوری کی وجہ سے برسوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مایوس کن صورتحال ہے جس کے ازالے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ نادار ملزمان کو سرکار کی طرف سے وکیل مہیا کیا جائے۔ ہمارے وزیر اعظم ملک سے ناانصافی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے، فی الوقت نادار ملزموں کو حکومت کی طرف سے وکیل مہیا کیا جائے۔

ہماری دنیا کا المیہ یہ ہے کہ عوام ایسی شدید طبقاتی ناانصافی میں مبتلا ہیں کہ اگر انھیں قریب سے دیکھا جائے تو انسانیت پر سے اعتماد اٹھ جائے۔ ہزاروں لوگ قانونی امداد سے اس لیے محروم ہیں کہ ان کے پاس نہ مقدمے کے خرچ کے لیے رقم ہے نہ محترم وکلا کو دینے کے لیے بھاری فیس ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وکلا برادری اس حوالے سے ضرورت مندسائلین کی مدد کا کوئی انتظام کر رہی ہے یا نہیں۔ اگر کر رہی ہے تو پھر اس مسئلے پر اسے پیش رفت کرنا چاہیے، اس مسئلے پر میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں نے قانونی مدد سے محروم ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو عزت کے ساتھ روٹی کما رہے ہیں لیکن روٹی سے آگے کے اخراجات کا ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔

یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں اور ایک ہی طبقے کے لوگ ان مقدمات سے متاثر ہوتے ہیں۔ جیلوں میں ایسے قیدی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن پر کیسز ہیں لیکن وہ پیروی نہیں کرسکتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے مریض پاگل یا نیم پاگل ہو جاتے ہیں۔ جیل انتظامیہ نے ان مظلوموں کے لیے "چریا وارڈ" کے نام سے ایک بیرک بنایا ہے جہاں ان نیم پاگل قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ کام صوبائی حکومتوں کا ہے کہ وہ اہم مسئلے پر غور کریں اور قیدیوں کو ہر ممکنہ علاج کی سہولتیں فراہم کریں۔

ہم جس سرمایہ دارانہ نظام میں جی رہے ہیں اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ ہر انسان کو صرف اپنے اور اپنے خاندان کی فکر ہے پڑوسی پڑوسی سے لاتعلق ہے، ایسے ملک میں سب سے پہلے ایسے لوگوں کی مدد کا ایک منظم انتظام کیا جائے جو اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ملک میں جتنی عدالتیں ہیں ان کی ہی بار کونسلیں ہیں اور وکلا کی ایک بڑی تعداد کھاتی پیتی ہے اگر وکلا برادری ایک منظم طریقے سے قانون کی لڑائی محض وسائل نہ ہونے سے نہ لڑنے والوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرے تو بے شمار لوگ عدالتوں میں گھسیٹے جانے سے بچ جائیں گے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد وسائل نہ ہونے سے انصاف ہی سے محروم ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے لوگوں کی کس طرح مدد کی جاتی ہے جو اپنے مقدمات لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ روٹی نہ ملنے سے بھوکے رہتے ہیں، علاج نہ ملنے سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، ایسے ملکوں میں بلاشبہ انقلاب فرانس طرزکے انقلاب کی ضرورت ہے اور ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انقلاب فرانس لانے والی پارٹی کی بات بہت دورکی ہے، آپس میں چارلوگوں کا متحد ہونا بھی مشکل ہے۔