Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qanoon Ki Baladasti

Qanoon Ki Baladasti

حکمران طبقہ اگر زمینی اور ملکی حالات سے باخبر ہے تو وہ سب سے پہلے اہم مسائل کو ترتیب دیتا ہے پھر اس میں ترجیحات کا تعین کرتا ہے پھر وسائل کو سامنے رکھ کر مسائل کے حل تلاش کرتا ہے۔ مہنگائی ایک عالمگیر مسئلہ ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں پسماندہ ملکوں میں یہ مسئلہ اقتدار سے جڑا ہوا ہے۔

پسماندہ ملکوں کے عوام میں لگژری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پیٹ بھر روٹی ہی ان کی لگژری ہوتی ہے اور وہ ان حکومتوں سے خوش رہتے ہیں، جو ان کے بنیادی مسائل کو حل کرتے ہیں، یہ مسئلہ اس قدر نازک ہے کہ اقتدارکو ڈانوا ڈول کر دیتا ہے۔

ہمارے ملک میں آج کل پی ٹی آئی حکومت قائم ہے ویسے تو اسے برسر اقتدار آئے ڈھائی سال ہو رہے ہیں لیکن یہ ڈھائی سال حکومت کی ناتجربہ کاریوں اور اپوزیشن کی ریشہ دوانیوں میں گزرگئے۔

سینیٹ میں اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر حفیظ شیخ کی شکست، اپوزیشن کے الزامات اور حکومت کی ناقص کارکردگی کے پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا اور 178 ووٹوں سے کامیاب رہے۔ یہ ایک واضح اور ناقابل اعتراض کامیابی تھی لیکن اپوزیشن نے اسے بھی منظور نہیں کیا چونکہ یہ ایک دستوری مسئلہ ہے لہٰذا اپوزیشن اس میں زیادہ کیڑے نہیں نکال سکتی۔

اب اعتماد کی تحریک کو ہی غیر آئینی قرار دے کر ایک نیا مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ملک میں دھاندلی پر مبنی سیاست ایک قومی مسلہ ہے۔ بددیانتی کے ذریعے اسمبلیوں میں داخل ہونے والے عناصرکو نہ روکا گیا تو عوام سڑکوں پر آجائیں گے کیونکہ ایک عام آدمی بھی اب یہ محسوس کر رہا ہے کہ دولت مند افراد اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوامی ایوانوں کے رکن بن جاتے ہیں۔ ادھر اپوزیشن کسی قیمت پر حکومت کو کام نہیں کرنے دینا چاہتی ہے۔ یہ صورت حال ہر ملک میں پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے بااختیار ادارے ہوتے ہیں۔

اپوزیشن کا محض حکومت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے سواکچھ مقصد نہیں لہٰذا حکومت کا حق ہے کہ وہ قانون کے خلاف کوئی کام نہ ہونے دے۔ یہ ملک 22 کروڑ عوام کا ہے، دس بارہ سیاسی جماعتوں کا نہیں ہے، اگر دستوری حوالوں سے حکومت کو کام کرنے سے روکا گیا تو حکمران جماعت کے کارکن سڑکوں پر آجائیں گے اور جب مشتعل کارکنان سڑکوں پر آتے ہیں تو انجام برا ہوتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن منتخب حکومتوں کوکام کرنے سے روکتی رہے تو پھر اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا، جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، اس کے خلاف سازشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ پاکستان میں دیرینہ روایت ہے، اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔

عوام اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ غریب عوام کو طاقتور گروہوں کی لڑائی میں کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ عوام کا یہ احساس قہر بن کر اشرافیہ پر ٹوٹ پڑ سکتا ہے۔ اس ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں جن کے پاس اپنے دو ہاتھوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ ہاتھ دن رات محنت کرکے ایلیٹ کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں جب وہ بھوک سے بے حال ہوں تو دو ہاتھوں سے اور کام بھی لے سکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے قانوناً اپوزیشن کا منہ بند کردیا تھا لیکن اسے ہم عوام کی بدقسمتی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ قانون میں ایسی خامیاں ہیں کہ ہمارے محترم قانون دان ان سے فائدہ اٹھا کر صورتحال کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی کے ساتھ ساتھ عوام کی بالادستی کو بھی نظر میں رکھا جائے کیونکہ جمہوری نظام میں عوام کی بالادستی نہیں ہوتی جو طاقتور طبقات کا مقابلہ کرسکے۔ اب حالات اس جگہ پہنچ گئے ہیں کہ قانون کی بالادستی کے ساتھ عوام کی بالادستی کو بھی استعمال کیا جائے۔