Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Rawadari (2)

Rawadari (2)

عالمی سطح پر رواداری اور محبت کا جذبہ بیدار نہیں ہوسکا، اسے ہم انسانوں کا المیہ ہی کہہ سکتے ہیں اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہماری طرح سوچنے والے دنیا بھر میں بڑی تعداد میں موجود ہوں گے لیکن المیہ یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان کوئی ایسا وسیلہ پیدا نہ ہو سکا جو انسانی رشتے کو فروغ دے سکے۔

ہو سکتا ہے اس حوالے سے مقامی سطح پر کچھ کام ہو رہا ہو لیکن عالمی سطح پر اس ضمن میں کوئی ٹھوس کام ہوتا نظر نہیں آ رہا اگر اس حوالے سے انسانوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کے فروغ کا کوئی ٹھوس کام نہیں ہو سکا۔ ہر کام کی ابتدا سوچ سے ہوتی ہے جب سوچ میں وسعت پیدا ہو اور وہ عالمی بن جائے تو اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ انسان کے مل جل کر رہنے کا کلچر پروان چڑھے گا اور دنیا نفرتوں کی جگہ محبت اور رواداری کا مرکز بن جائے گی۔ اس حوالے سے مجھے یقین ہے کہ ان جذبات کو مربوط اور منظم کیا جائے تو دنیا انسانوں کی جنت بن سکتی ہے۔

بلاشبہ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر مربوط اور منظم کام کیا جائے تو انسان، قوم، مذہب وملت کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو سکتی ہے اس کے لیے بلاشبہ کسی فرد یا گروہ کو آگے بڑھنا پڑے گا اور ایسے جذبات رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے بس ان میں قربت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا میں کئی ارب انسان رہتے ہیں جو رنگ نسل زبان قومیت وغیرہ کے حوالے سے تقسیم ہے رنگ نسل زبان قومیت مذہب وغیرہ کے حوالے سے انسانوں کی یہ تقسیم فطری ہے جس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن ان تمام تقسیموں میں محبت اور رواداری کا ایک عمومی رشتہ ہونا چاہیے جو بدقسمتی سے اب تک پیدا نہیں ہو سکا۔ اس اجنبیت کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں بدقسمتی سے یہ تقسیم محبت اور رواداری کے بجائے اجنبیت اور نفرت پر استوار ہے۔

اس ذہنیت کی وجہ سے قوموں کے درمیان محبت اور خلوص کے بجائے نفرتوں اور تعصبات کو بڑھاوا ملا جس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اضافہ ہوا اور جنگوں کا ایک ایسا کلچر پیدا ہوا جو انسانوں کے درمیان دشمنی اور نفرتوں کے پھیلاؤ کا سبب بنا اور اب تک لاکھوں انسان اس کلچر کی نظر ہوگئے اور اشرف المخلوقات، مخلوقات کا دشمن بن گیا، انسان ایک سماجی حیوان کہلاتا ہے لیکن اجنبیت نے اسے عملاً حیوان بنا دیا ہے۔

کیا اس نفرتوں اور تعصبات پر مبنی کلچر کو اسی طرح چھوڑ کر دنیا کو جہنم بنے رہنے دینا چاہیے یا اس کے بجائے انسانوں کے درمیان محبت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔ دنیا میں بے شمار تنظیمیں ہیں اور مقامی سطح پر انسانیت کے فروغ کا کام انجام دے رہی ہیں لیکن یہ سلسلہ عموماً قومی سطح تک محدود ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر انسانوں کے درمیان دنیا میں مذہبی رواداری کے حوالے سے کام ہو رہا ہوگا لیکن انسانیت کی اجتماعی بھلائی کے لیے اس کام کو عالمی سطح پر پھیلانے کی ضرورت ہے جس کی ابتدا خط و کتابت سے یا ٹیلیفونک رابطوں سے ہو سکتی ہے جو محض کالم لکھنے سے آگے نہیں بڑھ سکتی اس سلسلے میں عالمی سطح پر رابطوں کی ضرورت ہے۔ میں اس حوالے سے ابتدا کرنے کے لیے تیار ہوں، اگر لوگ رابطہ کریں تو اجتماعی سطح پر کام کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔

کسی بھی بڑے کام کے لیے ابتدا میں رابطوں کی ضرورت ہوتی ہے اور رابطوں کے لیے بھی کسی نہ کسی کو ابتدا کرنا ہوتی ہے میں کالم کے علاوہ فکشن بھی لکھتا ہوں میرے افسانوں کے 9 مجموعے اور کالموں کے چار مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ادب اور شاعری انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے عوام کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں مدد مل سکتی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں انسانوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے میں ادب اور شاعری نے بہت کام کیا ہے تقسیم ہند کے بعد انسانوں کے درمیان جو نفرتیں اور دوریاں پیدا ہوگئی تھیں اسے نزدیکیوں میں بدلنے کے لیے ادب اور شاعری نے بہت کام کیا ہے۔ آج کی دنیا نفرتوں اور عداوتوں کی دنیا ہے اسے محبتوں اور رواداری میں بدلنے کی کوشش کرنا ایک بڑی خدمت ہے۔ ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں بھاگ دوڑ کا کام نہیں کیا جاسکتا البتہ اگر انسانیت کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے قلمی کام کرنے کی ضرورت ہو تو پوری دلچسپی سے یہ کام کیا جاسکتا ہے۔

دنیا کو انسان نما درندوں نے نفرتوں کی آماج گاہ بنا دیا ہے اس دنیا کو محبت اور رواداری میں بدلنا ایک بہت بڑا کام اور خدمت ہے جو لوگ ان جذبات کی قدر کرتے ہیں ان کا رابطہ کرنا اور مل بیٹھنا ایک بڑا کام اور خدمت ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہو سکتی ہے کہ انسانوں کو رنگ نسل زبان قومیت اور مذہب کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے قریب لایا جائے بلکہ میرے خیال میں اس کام کو عملی شکل دینا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ انسان دوست لوگ اس حوالے سے آگے بڑھیں گے۔