Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Saare Harbe Aazma Liye

Saare Harbe Aazma Liye

ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کے جتنے حربے ممکن تھے، پی ڈی ایم نے استعمال کر لیے لیکن عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اب عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کی مہم میں جتے ہوئے ہیں اور اس نیک کام میں مدد کے لیے پرانے سیاستدانوں کو آگے لا رہے ہیں۔ فرما رہے ہیں کہ ہم حکومت کو چاروں طرف سے اس طرح گھیریں گے کہ اس کا ہمارے نشانے سے بچ نکلنا بہت مشکل ہوگا۔

یہ صرف دھمکی نہیں ہے بلکہ یہ کھلاڑی ایسا کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان کے پاس پرانے کارکنوں کی ایک بڑی اور ٹرینڈ نفری ہے۔

اس گروپ میں ہماری رائج الوقت سیاست کے وہ تمام کھلاڑی جمع ہو گئے ہیں جو آیندہ دس بیس سال کی فکر معاش سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ آج جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کا واحد مقصد آیندہ دس پندرہ سال تک فکر معاش سے آزاد ہو جائیں۔ جب مقصد اتنا اعلیٰ ہو تو بندہ اس کام کے لیے وہ ساری صلاحیتیں استعمال کر سکتا ہے جو اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم کی اس خوبی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ عوام کی بہتری اور ترقی چاہتے ہیں لیکن عوام کی بہتری اور ترقی کے لیے اس میدان کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو آج کل ہی کے پس منظر میں نہیں بلکہ آنے والے عشروں کے پس منظر میں پلاننگ کرتے ہیں اور بدقسمتی سے حکومت کے پاس ایسے پلانر نظر نہیں آتے، نہ ایسے شاطر نظر آتے ہیں جو عوام کی نظربندی میں ماہر ہوں۔

ہمارے وزیر اعظم بات بات پر کہتے ہیں "کسی کو نہیں چھوڑوں گا" جب کہ وہ جن کو نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں وہ سب چھوٹے ہوئے ہیں اور اپنی ذمے داریاں احسن طریقوں سے نبھا رہے ہیں۔ عمران خان ان رضاکاروں کی خدمات حاصل نہیں کرسکتے جو ہر فن مولا ہوتے ہیں اور ان کا رنگ پانی جیسا ہوتا ہے جس میں جو رنگ ملا بس وہ اس رنگ کو اختیارکر لیتا ہے۔

اپوزیشن میں ایسے فنکار شامل ہیں جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنا سکتے ہیں اور آج کل یہ فنکار اسی مشن پر لگے ہوتے ہیں۔ عمران خان کی پروپیگنڈا مشنری بڑی سست اور آؤٹ ڈیٹڈ ہے آج کی سیاست کا سارا کام پروپیگنڈے اور پبلسٹی کی ٹانگوں پر کھڑا ہے اور اس حوالے سے عمران حکومت بہت کمزور نظر آتی ہے، حکومت میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو آج کے پروپیگنڈا تکنیک پر پورا اتر سکے، حکومتی ترجمان ہیں وہ سیاسی تقریریں وعظ کی طرح کرتے ہیں جس کا عوام پر بہت کم اثر پڑتا ہے۔

اپوزیشن ہوشیار ہے وہ جو چاہے کہہ سکتی ہے کسی کی ہمت نہیں کہ اس کی زبان کو لگام دے۔ اس آزادی کی وجہ تسمیہ ہم جیسے کوڑھ مغزوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس گمبھیر سیاسی صورتحال میں ہمارے حکمران پیلس اور سو ڈیڑھ سو کنال اراضی کو ناجائز قبضے سے چھڑانے اور پیلس گرانے میں مصروف ہیں۔ اس غلط اور بے موقع اقدام سے حکومت کو کتنا فائدہ ہوا کتنا نقصان اس پر نظر رکھنے والا کوئی ہے۔

مہنگائی عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے کوئی مسئلہ عوام کو سڑکوں پر لائے نہ لائے البتہ مہنگائی عوام کو سڑکوں پر لاسکتی ہے۔ قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ ماضی کی حکومتوں میں ہماری حکمران اشرافیہ نے آیندہ کی سوچتے ہوئے تاجروں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے حلقوں سے اتنے قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں کہ انھیں ہماری اشرافیہ جب چاہے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہے، ملکی مہنگائی کو بھی اسی سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں زرداری صاحب کے ولی عہد کی یہ رائے بہت مفید نظر آتی ہے کہ ادھر ادھر بھاگنے کے بجائے تحریک عدم اعتماد لانے پر توجہ دی جائے تو فتح کی امید قوی ہوجاتی ہے۔

بہرحال فائنل راؤنڈ کھیلا جا رہا ہے اگر عمران خان کسی طرح آیندہ الیکشن میں کامیاب ہو جاتے تو 70 سالہ لوٹ مار کا انت ہو جائے گا اگر آیندہ حکومت کو اقتدار میں نہیں آنے دیا جاتا تو آنے والے دنوں میں کرپشن بڑھے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بالادست طاقتیں اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہیں کہ ملک سے لوٹ مار کا بدترین نظام ختم ہو جائے۔ بہرحال بقول سابق صدر آصف علی زرداری، حکومت کو گھر بھیجنا ضروری ہو چکا ہے۔