میڈیا کی خبروں کے مطابق بھارت کی خفیہ ایجنسیاں بھارت کے آر ایس ایس مارکہ حکمران جماعت بھارتی وزیر اعظم کی متعصب پالیسیوں کا دفاع کرنے اور انھیں موثر ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر میں سرگرم ہوگئی ہیں۔
مودی کی متعصب داخلی اور خارجہ پالیسیوں کے خلاف دنیا کے ملک اس پر تنقید کر رہے ہیں، جس کا بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس منفی صورتحال سے نکلنے کے لیے مودی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ بھارت کی داخلی اور خارجی متعصب پالیسیوں کا اثر زائل کرنے کی کوشش کریں، ویسے تو بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ہمیشہ بھارتی حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں کے خلاف دفاع کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں لیکن مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد آر ایس ایس کے زیر سایہ جن متعصبانہ پالیسیوں کا آغاز ہوا ہے، اس سے بھارت اب بدنام ملک بن گیا ہے۔
چین کی پاکستان دوست خارجہ پالیسی نے بھارت کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے خاص طور پر کورونا وائرس کے حوالے سے چین پاکستان کی جو امداد کر رہا ہے اس سے بھارتی حکومت بہت نالاں ہے اور اس کی براہ راست اور بالواسطہ کوشش یہی ہے کہ چین کو کسی طرح پاکستان سے غیر معمولی تعلقات میں رکاوٹ ڈالے۔
بھارت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کرتا آ رہا ہے، اس سے پاکستان دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے ایک جاسوس کلبھوشن یادیو کی رنگے ہاتھوں گرفتاری نے دنیا بھر میں بھارت کا منہ کالا کرکے رکھ دیا ہے، مسئلہ کشمیر نے بھارت کو دنیا بھر میں بدنام کرکے رکھ دیا ہے یہ موٹی سی بات بھارتی حکمران طبقے کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ کشمیر کی مسلمان آبادی اب بھارتی تسلط میں زندہ رہنے کے لیے تیار نہیں، اگر بھارتی حکمران اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ کسی قوم کو طاقت اور صبر کے ذریعے اسے ساتھ نہیں رکھا جاسکتا اگر بھارتی حکمران طبقہ اس حقیقت کو سمجھ لیتا تو وہ کسی نہ کسی طرح کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تیار ہو جاتا لیکن بھارتی حکمرانوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ حقائق کے ساتھ زندہ رہنے کی بجائے خوابوں کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
ایک ملک میں 90 فیصد سے زیادہ آبادی سخت مذہبی تفریق کا شکار ہے اس سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے ساتھ پیار محبت دوستی کے ذریعے اعتماد حاصل کرنے کی بجائے گرفتاریوں، تشدد اور طاقت کے ذریعے حکومت کرنے کی احمقانہ کوشش کر رہی ہے اس سونے پر سہاگہ یہ کہ اقوام متحدہ نے کشمیر کے مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل کرنے کی قرارداد پاس کی ہوئی ہے اور اس قرارداد پر عملدرآمد ضروری ہے۔
چین کے بعد بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اگر بھارت کا حکمران طبقہ عالمی مسائل کے حوالے سے مثبت اور متحرک کردار ادا کرے اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے تو نہ صرف دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے بلکہ دنیا پر سے سامراجی ممالک کا تسلط بھی ختم ہو سکتا ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ بھارت مذہبی انتہا پسندی کے دلدل سے باہر آسکتا ہے اس میں شک نہیں کہ ہم اور ہم جیسی سوچ رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن چونکہ وہ تہی دامن ہیں لہٰذا وہ ایک طرح کی اور مثبت سوچ رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب ایک مرکز پر لانے کا بہترین کردار ادا کر نے سے قاصر ہیں۔
بدقسمتی سے دنیا ایک انتہائی خوفناک موذی وبا کورونا کی زد میں ہے، اب تک لاکھوں انسان اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور اس سے بہت زیادہ لوگ اس وبا کی زد میں ہیں یہ ایسی خطرناک صورتحال ہے کہ کرہ ارض پر انسان کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ انفرادی طور پر مختلف ملکوں کے سائنس دان، ماہر ڈاکٹرز کورونا کی ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تاہنوز انھیں اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس "بکھری ہوئی مہارت "کو اگر ایک مرکز پر لایا جائے تو زیادہ بہتر طریقے سے تحقیقی کام نہیں ہوسکتا۔ کیا متعلقہ طاقتیں ان خطوط پر بھی سوچنے کی زحمت کریں گی۔
اس حوالے سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر دنیا کے طبی ماہرین کورونا کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا ہو جاتے ہیں تو دنیا کا دوسرا اہم مسئلہ غربت کی طرف توجہ دینے کے مواقع حاصل ہوسکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے جو طبقاتی نظام ابھرا ہے وہ صدیوں پر پھیلا ہوا وہ کورونا ہے جو ہر سال بھوک، بیماری، بے روزگاری سے لاکھوں انسانوں کی جانیں لے رہا ہے۔ وبا کورونا بلاشبہ انسانی تاریخ کی بدترین اور خوفناک ترین وبا ہے اور لاکھوں انسانی جانوں کی بھینٹ لے رہی ہے یہ وبا تو جلد یا بدیر ختم ہو جائے گی لیکن بھوک بیماری اور بے روزگاری کی صدیوں پرانی وبا کا خاتمہ ممکن ہے؟
آج کا منظرنامہ ہمارے سامنے ہے بھوک کے مارے عوام جہاں بھوک کو مٹانے کی سبیل کرتے دکھائی دیتے ہیں وہاں بھوکے انسان ہجوم کی شکل میں جمع ہوجاتے ہیں انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ کورونا کے تقاضے کیا ہیں بس ہر بھوکے کی نظریں روٹی کی تلاش میں ہوتی ہیں اور مراعات یافتہ طبقات بھوک بیماری سے بے نیاز بابر بہ عیش کوش کے عالم دوبارہ نیست کی راہ پر چلتے نظر آتے ہیں یہ وہ دوسرا کورونا ہے جو چپکے چپکے صدیوں سے غریب طبقات کی جان لے رہا ہے کیا اس وبا کی ویکسین تیار کرنے کی ضرورت ہے؟