عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور روایت کے مطابق بھارتی حکمران طبقے نے ٹرمپ کی ثالثی کی خواہش یا پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ امریکی صدر کے کئی فیصلے کئی خواہشیں ایسی ہیں جنھیں پذیرائی نہیں ملی لیکن ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے اپنی جو خدمات پیش کی ہیں اس کے خلاف بھارتی حکومت کا ردعمل انتہائی افسوسناک ہے۔ کشمیر 70 سال سے نفرت کی آگ میں جل رہا ہے اگر کسی طرف سے بھی کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوئی تجویز سامنے آتی ہے تو اسے یکسر رد کرنے کے بجائے اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں سمیت جتنی کوششیں کی گئیں، اس کا جواب بھارتی حکمران طبقے نے ترشی سے دیا۔
اس حوالے سے چند حقائق کا ذکر ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کے حق خود ارادی کا ایک ایسا مسئلہ ہے جن کے حوالے سے اقوام متحدہ نے عشروں پہلے یہ قرارداد منظورکی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے۔ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف دونوں ملکوں کے ایک ارب کے لگ بھگ عوام کے مستقبل سے وابستہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے عوام کا بہتر مستقبل بھی اس مسئلے کے پرامن حل سے وابستہ ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ جنوبی ایشیا کے بہتر مستقبل سے وابستہ اس مسئلے کو صرف نام نہاد قومی مفادات کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔
اب دنیا انیسویں صدی کے دور میں نہیں جب دنیا کے مسائل کو صرف طاقت کے بل پر حل کرنے کا رواج تھا، اب دنیا بدل گئی ہے، اب طاقت کی سیاست کو دور کیا جا رہا ہے اور متحارب ملکوں کے درمیان موجود مسائل کو پرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکمران اکیسویں صدی میں بھی طاقت کی برتری کے فلسفے پر کاربند ہیں جس کا نتیجہ 70 ہزار کشمیریوں کے خون کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ امریکا ایک سپر طاقت ہے۔ امریکی حکمران عموماً کشمیر کے مسئلے پر حق کا ساتھ دینے کے بجائے مصلحت اور مفاد پرستی کے مظاہرے کرتے رہے ہیں اگر ایک امریکی صدر کشمیر کی آگ کو بجھانے کے لیے ثالثی کی پیشکش کر رہا ہے تو بھارتی حکمرانوں کو اس پیشکش کو جذباتی یا منافقانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے اس کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔
ہندو اور مسلمان کی تفریق سے اس مسئلے کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے جب کہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ انسانوں کے حق خود ارادی کا مسئلہ ہے۔ دنیا کا سماجی کلچر تیزی سے بدل رہا ہے، اب دنیا کے انسان قوم ملک زبان جیسے تصورات سے باہر نکل کر ایک انسان رشتے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ماضی کے فرسودہ تصورات کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اب دنیا کا انسان انسانی رشتے کو افضل سمجھتا ہے۔
اس تناظر میں مذہب، ذات پات، رنگ نسل، زبان اور قومیت کے تصورات کو جدید دنیا کی ضرورتوں کے تناظر میں دنیا کی تشکیل نو کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں لیکن بھارت کا تنگ نظر حکمران طبقہ ابھی طاقت کی برتری کے اذکار رفتہ فلسفے کا پیرو کار بنا ہوا ہے۔
کشمیر محض ایک زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ کروڑوں زندہ اور جیتے جاگتے انسانوں کے ملک کا نام ہے، جن کی ایک سیکڑوں سالوں پر مشتمل تاریخ ہے، کلچر ہے، زبان ہے، ان حقائق کو محض طاقت کے ذریعے روندا نہیں جاسکتا۔ بدقسمتی سے بھارت میں پنڈت جواہر لال نہرو سمیت کوئی ایسا لیڈر پیدا نہیں ہوا جو مسئلہ کشمیر کو الحاق دستاویزات کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے کروڑوں انسانوں کے جذبات اور احساسات کے تناظر میں اور علاقے کے امن کے تناظر میں دیکھنے کا اہل رہا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ایک خاموش آتش فشاں کی حیثیت اختیارکرگیا ہے اور کسی بھی وقت یہ آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے ایک اچھے اور امن پسند لیڈر کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آگے بڑھنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش پر ہندوستان کا حکمران طبقہ قومی پریس اور مذہبی انتہا پسند طاقتیں جس غیر انسانی ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں اسے ہم جہل کا مظاہرہ کہہ سکتے ہیں۔
انسان ہزاروں سال تاریخ کے طویل دور سے گزر کر اب ایک نئی اور ایسی جدید دنیا میں داخل ہو رہا ہے جس میں انسانیت قابل احترام مانی جا رہی ہے۔ ماضی کے مزاروں کے اوپر سے پھلانگ کر انسان ایک ایسی دنیا ایسی تہذیب کی تلاش میں ہے جو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ، پارسی کی تنگ نظرانہ تفریق ہندوستانی پاکستانی امریکی روسی چینی جاپانی جیسی تفریقوں کو نصرت اور دشمنی کا ذریعہ بنانے کے بجائے محبت اور رواداری کی حسین وادیوں میں سفر کا متلاشی ہے، آنے والے ایسے خوبصورت دور کو بھارتی انتہا پسند تعصب کی آگ میں جلانے کے درپے ہیں۔ یہ جرم بھارت کے کروڑوں عوام نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ مٹھی بھر انسانیت کے قاتل کر رہے ہیں جو عملاً تنگ نظری کے غلام ہیں اور انسانوں کو کسی نہ کسی بہانے ایک دوسرے کے قریب آنے سے روک رہے ہیں۔
بعض احمق یہ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی مل جائے تو تعصبات کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ کیا ان محترمین کو یہ اندازہ نہیں کہ آج ساری دنیا جس دہشت ناک، دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اس کا بڑا سبب کشمیر اور فلسطین کے وہ مسائل ہیں جو دہشت گردوں کے لیے کھاد کا کام انجام دے رہے ہیں۔ امریکی صدر نے اپنی سیاسی زندگی میں ایک نیک ارادہ کیا ہے، وہ ہے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش۔ ہندوستان کو اس پر چراغ پا ہونے کے بجائے ٹھنڈے دل سے برصغیر اور جنوبی ایشیا کے عوام کے بہتر مستقبل کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔