ہماری سیاسی پارٹیوں کے درمیان دوستی اور تعاون کا جوکلچر فروغ پا رہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو انشا اللہ آنے والے دنوں میں ہر سیاستدان کے پاس ایک پستول ہوگا اور مذاکرات کے وقت پستول ٹیبل پر رکھا ہوا ہوگا، یہ کلچر قبائلی علاقوں میں دیکھا جاتا ہے اور قبائل کے مذاکرات کے دوران پستول یا دوسرے ہتھیار فیصلوں میں بہت مدد دیتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہماری سیاست کے شب و روز یہی رہے اور ہم مہذب اور پرامن سیاستدان بننے کی کوشش نہ کریں تو ہماری سیاسی پارٹیوں کے مذاکرات کے دوران پستول اہم کردار ادا کرے گا۔
جس معاشرے میں سیاست میں قومی مفادات کے بجائے ذاتی اور جماعتی ضرورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے وہ معاشرہ نہ صرف تشدد پسند ہو جاتا ہے بلکہ قومی مفادات کی جگہ ذاتی اور جماعتی مفادات لے لیتے ہیں اور بے چارے عوام نہ صرف مسائل میں جکڑے رہتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اختلافات دشمنیوں کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوتی ہے؟ سیاست دانوں کی جب ترجیحات بدل جاتی ہیں اور قومی مفادات اور عوام کے مسائل کے بجائے ذاتی مفادات اور جماعتی مفادات اہمیت اختیار کر لیتے ہیں۔ 72 سال گزرنے کے بعد ہماری سیاست میں جو ترقی ہوئی ہے، وہ یہی ہے۔
جب صورتحال ایسی ہو جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ جن ملکوں میں سیاستدانوں میں قومی مفادات کو ترجیح حاصل ہوتی ہے ان ملکوں میں بدترین صورتحال پیدا نہیں ہوتی، تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک پر بدترین اور خودغرض اشرافیہ قومی مسائل کو پس پشت ڈال کر اپنے فائدہ پہنچانے والے مسائل میں اس طرح گھر جاتی ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ بحیثیت سیاستدان اپوزیشن اور حکمران ہماری واحد ترجیح قومی مفادات ہونے چاہیئیں لیکن ہمارے سیاستدان مہذب طرزعمل اختیار کرنے کے بجائے آپس میں لڑ رہے ہیں۔
اس کلچرکی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری جمہوریت میں سرے سے جمہورکا پتا ہی نہیں ہے بلکہ اشرافیہ نے اس مضبوطی سے سیاست کا کنٹرول سنبھال لیا ہے کہ کسی "باہر" کے آدمی کو ان کی رائل سیاست میں انٹری کا موقعہ ہی حاصل نہیں ہوتا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست اشرافیہ کی رکھیل بن کر رہ گئی ہے عام آدمی جو سیاست کا پلر ہوتا ہے اسے سیاست سے اس طرح باہر نکال پھینکا گیا ہے جس طرح دودھ سے مکھی کو نکال پھینکا جاتا ہے بغیر عوام کے سیاست کا جو حشر ہونا چاہیے وہ ہو رہا ہے۔
آج ہم سیاست کا جو حشر دیکھ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ نے سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور چند خاندان سیاست کی گاڑی کو جس طرح جس طرف چاہیں دھکیل رہے ہیں۔ ان سیاسی قدروں کو بھلا دیا گیا ہے جو مہذب سیاستدان کی پہچان ہوتی ہیں، ملک کے وزیراعظم کے بارے میں ایسی زبان استعمال ہو رہی ہے جو ملک کے اندر ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر ہماری قومی تضحیک کا باعث بن رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عوام سیاستدانوں کی عزت کرتے تھے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ سیاستدانوں کا احترام سے نام لیتا ہے تو اسے چمچہ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
آج کل جو سب سے اہم مسئلہ ہے وہ ہے سینیٹ کے انتخابات۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں اور حکومت کا موقف ہے کہ خفیہ رائے دہی کے بجائے اوپن شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کیے جائیں۔ اس مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن میں ٹھنی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ اتنی زیادہ اہمیت کا نہیں البتہ اہل غرض کے لیے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ خفیہ رائے دہی میں بددیانتی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور شو آف ہینڈ میں بدعنوانی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
یہ ملک عوام کا ہے اس کے مالک عوام ہیں جس پر 72 سال سے اشرافیہ نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کو دنیا کی اشرافیہ سے نجات دلائی جائے۔ اس اصل اور بنیادی مسئلے کو پس پشت ڈال کر اشرافیہ نے عوامی دولت کی لوٹ مار کے لیے آپس میں لڑائی شروع کی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق اور جمہوریت کی باگ ڈور سنبھالنے میں ناکام ہیں۔ عوام کو اپنی ذمے داریاں اور حقوق سے غافل پا کر اس ملک پر بددیانت اشرافیہ نے قبضہ کیا ہے اور پچھلے 10 سال لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ جب لوٹ مار کی رقم رکھنے کے لیے جگہ نہیں رہی تو غریب عوام کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے بلکہ کروڑوں روپے ڈال دیے یہ اشرافیہ کی لوٹ مار کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ دنیا کی جمہوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس لوٹ مار کو بریک لگانے کے لیے عمران خان نے سیاست میں کامیاب انٹری ڈالی۔ عمران خان کی آمد نے اشرافیہ کو پریشان کر دیا ہے، اب پہلی بار انھیں اپنی بادشاہتوں کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اور اس خوف سے تلملا رہے ہیں کہ اقتدار دوبارہ حاصل ہوگا یا نہیں۔ سینیٹ میں خفیہ رائے دہی کے ذریعے انتخاب کا معاملہ بے ایمانی کے ذریعے سینیٹ پر قبضہ کرنا ہے تاکہ کم ازکم ایک ادارہ تو ان کے ہاتھوں میں رہے۔
اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کو ٹریڈ یونین، کسان تنظیمیں، ڈاکٹرز کی تنظیموں، انجینئرز کی تنظیموں، طلبا کی تنظیموں سے رابطے کرنے چاہئیں۔ پریکٹیکلی سینیٹ میں تو کوئی خاص کام نہیں کر سکتا لیکن عام انتخابات میں یہ اہم ترین کردار ادا کرسکتی ہے، جس کے لیے ابھی سے رابطے ضروری ہیں۔