ہم نے بھی جب ٹی وی کھولا تو ہر چینل پر خواتین و حضرات کی زبان پر عمران خان ہی تھا۔ حوالے مختلف تھے لیکن بنیادی موضوع سخن عمران خان ہی تھا۔ عمران خان نے یہ کہا تھا، عمران نے وہ کہا تھا، عمران نے کشمیر کو بیچ دیا ہے۔
خواتین و حضرات یہ نہیں بتا رہے تھے کہ عمران خان نے کشمیر کو کتنے میں بیچا ہے نقد بیچا ہے یا ادھار بیچا ہے؟ ایک کو تو عمران خان فوبیا ہو گیا ہے ان کی زبان پر سے عمران خان اترتا ہی نہیں یہ سب خاندانی شرفا ہیں بات کرتے ہیں لیکن سب کا موضوع بحث ایک ہی ہوتا ہے عمران خان اور عمران خان۔ ان کے ارشادات سے بے نیاز لاکھوں عوام میں گھرا صرف عوام اور ان کے بہتر مستقبل کی باتوں میں مصروف ان مکروہات سے بچا رہتا ہے اس کی زبان پر عوام کے بہتر مستقبل کی پلاننگ کی باتیں ہوتی ہیں، اس کی پارٹی کے دو تین افراد البتہ عمران دشمنی کا جواب دیتے ہیں لیکن گالی گلوچ سے نہیں شائستگی سے ایسی شائستگی سے جس میں جہل کا دور دور تک پتا نہیں ہوتا۔ یہ ہے وہ انفرادیت جو تہذیب اور بدتہذیبی کو اجاگر کرتی ہے اور عوام چینل بدل کر کسی شائستہ چینل پر چلے جاتے ہیں اور گالم گلوچ کے بجائے شائستگی سے مقررین کی باتیں سنتے ہیں۔
اپوزیشن کے ایک لیڈر بار بار یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ عمران نے اقتدار میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر دے گا۔ عمران خان کو اقتدار میں آئے ہوئے اب تین سال ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے نہ کشمیر کو تین حصوں میں بیچا نہ چار حصوں میں بیچا وہ تو کہہ رہا ہے کہ میں ساری دنیا میں کشمیر کا سفیر بن کر جاؤں گا اور دنیا کو کشمیریوں پر مودی حکومت کے مظالم سے آگاہ کروں گا۔ دنیا کے عوام کو کشمیری عوام کی حمایت کے لیے تیارکروں گا، اپوزیشن والے تو آنے والے دنوں میں عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے لیے وسائل جمع کر رہے تھے۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ براڈ شیٹ نے اتنا کچھ دے دیا ہے کہ اب کسی سے کشمیرکازکے لیے چندہ وصول کرنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی پچھلے دس برسوں میں اتنا جمع کر لیا ہے کہ اگلے پانچ چھ سالوں تک انھیں ایک پائی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن اس بھاری رقم کو کشمیر کی آزادی کی لڑائی پر لگانے کے بجائے کشمیر کے سفیر عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، عمران خان اتنا ہی مقبول ہو رہا ہے۔
ایک طرف ایک عمران خان اور اس کے چند ساتھی ایک جماعت تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں، دوسری طرف 11 جماعتیں 11 سو حامیوں کے ساتھ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی 11 توپوں کا رخ عمران خان کی طرف کیے ہوئے ہیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ عمران خان کے خلاف جتنا پروپیگنڈا ہو رہا ہے عمران خان عوام میں اتنا زیادہ مقبول ہو رہا ہے اس کا کوئی علاج مخالف بقراطوں کے پاس ہے؟ سوائے تنقید کرنے کے کیا پی ڈی ایم اپنے سراغ رسانوں کے ذریعے یہ راز معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اس کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے عمران اتنا ہی مقبول ہو رہا ہے عمران خان کے جلسوں جلوسوں میں عوام کا سمندر امنڈتا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
عمران خان کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ وہ کرپٹ نہیں، نہ اپوزیشن کو یہ ہمت ہوئی کہ وہ عمران خان پر ایک "دھیلے" کی کرپشن کا الزام لگا سکے، یہی راز عمران خان کی مقبولیت کا ہے کہ وہ ایک ایماندار شخص ہے۔ اور عوام اسی وجہ سے عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ ہم سال بھر سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو عوام میں آنا چاہیے۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
عمران خان اگر چھ ماہ سے پہلے بھی آتے تو (عوام میں) اپوزیشن کی ساری دکانیں بند ہو جاتیں۔ حکومت کی ایک کمزوری یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اچھے اور پرجوش مقررین کم ہیں۔ حکومت کو یہ کمزوری دور کرنا چاہیے۔ اچھے اسپیکر عوام کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس کمی کو دور کرنے سے تحریک انصاف کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ جن لیڈروں اور پارٹیوں کے ساتھ عوام کی حمایت کا سرمایہ ہوتا ہے انھیں مدد کی ضرورت نہیں ہوتی اورپی ٹی آئی کے ساتھ عوام کا بہت بڑا سرمایہ ہے اس حوالے سے عمران خان بہت بڑا سرمایہ دار ہے۔
سیاسی اشرافیہ اب تک حکومت کے خلاف پچاسوں حربے استعمال کرچکی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دولت عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے صرف محنت اور عوام سے محبت اور خلوص ہی عوام کی لاکھوں کی تعداد کو لیڈر کے گرد جمع کرتے ہیں اور خوش قسمتی سے یہ دونوں خوبیاں عمران اور اس کی پارٹی میں موجود ہیں۔ اب پارٹی کو عوامی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت ہے، بے شمار نوجوان ہم سے بھی تحریک انصاف میں شرکت کا طریقہ معلوم کرتے ہیں۔ سابق بلدیہ کی یونین کی سطح پر تحریک کا ڈھانچہ ترتیب دیا جائے تو تحریک انصاف کو اس کا بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خاص طور پر انتخابات کے موقع پر یونین کونسل کی سطح پر بننے والی یہ تنظیمیں بہت کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔