ناجائز دولت کا حصول ایک ایسی لت ہے جس سے ہر وہ شخص فائدہ اٹھاتا ہے، جسے اس کے حصول کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت مزید آسان ہو جاتا ہے جب ایسے بندے برسر اقتدار ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت سے پہلے کی حکومتوں پر الزام ہے کہ انھوں نے ناجائز دولت کی لوٹ مارکی لیکن سابقہ حکومتیں اس الزام کو پروپیگنڈے کا ایک حصہ کہتی ہیں۔
یوں یہ مسئلہ تین برس سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ جسے قومی خزانہ کہا جاتا ہے وہ عوام کی محنت کی کمائی ہوتی ہے اور اپنی لٹی ہوئی دولت کو واپس لینا عوام کی ذمے داری ہے۔ عوام خود سے لٹیروں سے اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لے سکتے اس کے لیے انھیں ایسی حکومت کو برسر اقتدار لانا ہوتا ہے جو لٹیروں سے اربوں روپے واپس لے سکے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لینا ایک مشکل ترین کام ہے۔
پی ٹی آئی حکومت پرکرپشن کا کوئی الزام اپوزیشن لاکھ کوششوں کے باوجود نہ لگا سکی نہ ثابت کرسکی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کرپشن سے پاک ہے اور سابقہ حکومتوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس کردے لیکن اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس نے کوئی دولت نہیں لوٹی بلکہ وہ حکومت پر جوابی الزام لگا رہی ہے کہ حکومت لوٹ مارکر رہی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ جب تک لوٹی ہوئی اربوں روپے کی رقم اپوزیشن واپس نہیں کردیتی وہ اپوزیشن سے کوئی واسطہ نہیں رکھے گی اور اب تو اپوزیشن یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح حکومت کو چلتا کردے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ بے چارے عوام جو لٹ گئے ہیں حکومت اور اپوزیشن کی اس بیت بازی سے حیران ہیں کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہو اور لوٹے ہوئے اربوں روپے خزانے میں آئیں تو ان کی غربت میں کمی آئے۔ جب سابقہ حکومتیں اقتدار سے الگ ہوئیں تو ان کی کرپشن کی کہانیوں سے میڈیا بھرا رہا اور اس حوالے سے ایسی کہانیاں جنم لیتی رہیں کہ عوام ان کہانیوں کو میڈیا میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
حکومت اگر لٹیری ہوتی تو اس کا اندازہ اس کی شاہ خرچیوں سے ہو جاتا جب کہ اپوزیشن جلسے جلوسوں پر جو بھاری رقم خرچ کر رہی ہے، حکومت کا الزام ہے کہ یہ رقم اس لوٹ مار کی ہے جو پچھلے سالوں میں کی گئی۔ اپوزیشن حکومت گرانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ بے چارے عوام حیران ہیں کہ وہ اپنی محنت کی کمائی جسے انتہائی بے دردی سے لوٹا گیا ہے کس طرح واپس لیں؟ دولت سے ناممکن کو ممکن بنایا جاتا ہے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ بڑی نازک صورتحال ہے جو دونوں پارٹیوں کو کسی وقت بھی تصادم کی طرف لے جاسکتی ہے۔
ہر ملک میں ایسی طاقتیں ہوتی ہیں جو ایسے نازک اور متنازع مواقعے پر اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام سیاست میں یہ چال چلی گئی تھی کہ فوج کو سیاسی مسائل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، تاکہ یہ طاقتور ادارہ کرپشن کی روک تھام اور خاتمے میں کوئی حتمی کردار ادا نہ کرسکے۔ رہی عدلیہ تو اس کے کردار کو روکنے کے لیے قانون کی ایسی ہی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں کہ اس قسم کے مسئلوں کو یا تو بری طرح الجھا دیا جاتا ہے یا پھر اسے اتنا لمبا کھینچا جاتا ہے کہ وہ ماضی کا قصہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ لوٹ مارکا ایسا حصہ ہے جسے اس نظام کے ماہرین نے بڑی سوچ بچار بڑی کاوشوں کے بعد ریاست کے سر پر رکھ دیا ہے۔
ہماری نیک نام اپوزیشن جانتی ہے کہ ریاست کے یہ دو ایسے ادارے ہیں جو انصاف کے راستے میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو ٹھوکر مارکر دورکردیتے ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے ان کے خلاف قبل از وقت ایسا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اہل دانش بھی چکرا کر رہ جاتے ہیں یہی نہیں بلکہ آئین میں بھی ایسی بندشیں لگا دی جاتی ہیں کہ یہ ادارے عضو معطل بن کر رہ جاتے ہیں اور قوم و ملک انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں اور کرپٹ عناصر محفوظ ہو جاتے ہیں۔